• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی (مظہرعباس)ملک کےسب سےبڑے شہر کراچی کے مسائل کا کوئی آسان حل نہیں ہےاورہربارجب ہمارے حکمران طبقے نے کچھ نئے تجربات کرنے کی کوشش کی تو اس سے مسائل مزید گھمبیر ہوگئےایسا ہی وفاقی وزیرِقانون اوروزیرِ اعظم کی کراچی کمیٹی کےسربراہ فروغ نسیم کی جانب سے آرٹیکل 149(4)کے ممکنہ استعمال کااشارہ دینےکےبعد ہوااس سےوفاقی حکومت کےپاس صوبائی حکومت کو ʼضروری ہدایتʼ جاری کرنے کا اختیارہے۔ آرٹیکل 149جس کاعنوان مخصوص حالات میں صوبائی حکومتوں کو ہدایات ہے، اس میں چارشقیں ہیں لیکن اس وقت جو زیرغور ہے وہ شق VIہے ، اس کے مطابق ʼوفاق کاعاملانہ اختیارکسی صوبے کو ایسےبابت ہدایت دینےپر بھی وسعت پزیرہوگا، جس میں اس کےعاملانہ اختیارکوپاکستان یااس کےکسی حصےکےامن یاسکون یااقتصادی زندگی کیلئےکسی سنگین خطرے کے انسداد کی غرض سے استعمال کیاجاناہو۔‘ جہاں تک امن و امان کی صورتحال کا تعلق ہے تو اس میں خاص طور پر 2013 کےکراچی آپریشن کےبعدسندھ رینجرز کو بااختیار بنانے کے نتیجے میں بہتری آئی ہے۔ جبکہ 1989 سے ہی حکومت سندھ کی درخواست پرشہر میں رینجرز موجودتھے، لیکن پچھلے پانچ سالوں میں قابل ذکربہتری آئی۔ سندھ پولیس کے معاملے میں صوبائی حکومت نے اپنی تاریخی غلط کو درست کیا جب اس نے 2013 میں پولیس آرڈر 2002 کو پولیس ایکٹ 1861 سے تبدیل کر دیا تھا۔ یہ سابق آئی جی پویس سندھ اے ڈی خواجہ کےکیس میں ایک طویل قانونی جنگ کاباعث بنا۔ کچھ مہینے پہلے ہی حکومت سندھ نے پولیس آرڈر 2002 کو بحال کیا،لیکن کچھ اہم ترامیم کےساتھ ایسا کیاگیا جس کے باعث وزیر اعلی کےپاس اہم اختیارات موجود رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت پنجاب اپنی نئی پولیس اصلاحات میں بھی یہی کام کررہی ہے۔ اس طرح پولیس کو غیرسیاسی کرنے کا خواب ایک خواب ہی رہےگا۔ لہذا ، وفاقی حکومت امن و امان کوآرٹیکل 149 (4) نافذکرنےکیلئےاستعمال نہیں کرسکتی ہے۔ غالباًیہ شق VI کی آخری سطر کا حوالہ دےسکتاہے ، جو امن یامعاشی زندگی سے متعلق ہے۔ یہاں تک کہ شہروفاق کے ماتحت نہیں جاسکتاکیونکہ مرکز زیادہ سے زیادہ صوبے کو واضح ہدایات جاری کرسکتا ہے اور اس کے نفاذ کو دیکھنے کےطریقہ کارپربھی کام کرسکتاہے۔ ایسے تمام معاملات میں عمل درآمد کااختیارصوبائی حکومت یاشہری حکومت کوحاصل ہوناضروری ہے۔ اس سے سب سے بڑامسئلہ پیش آیا، جس کاسامنااس شہر کو طویل عرصے سے ہورہاہے یعنی وفاقی حکومت ، سندھ حکومت اور سٹی حکومت کے مابین اختلاف کی وجہ کہ شہر کی دیکھ بھال کون کرےگا۔ ان تینوں کے مابین اختلافات سیاسی اور معاشی دونوں ہی طرح کےتھے کیونکہ اب بھی بہت سے دلچسپی رکھنے والےحلقوں کے لئے یہ 3 کروڑلوگوں کا شہر ہے اور اسے سونے کی کان سمجھاجاتاہے۔ لہذا ، وزیر اعظم عمران خان کے ذہن میں کیاہوگا جب وہ صورتحال کا جائزہ لینے اور اس کمیٹی کے ساتھ اس معاملے پر تبادلہ خیال کریں گے جسےانہوں نے ایک ہفتہ قبل تشکیل دیا ہے۔ کمیٹی پہلے ہی متنازعہ بن چکی ہے ، اول، اس لیےکہ وزیر اعلیٰ سندھ ، سید مراد علی شاہ اور ان کی ٹیم صوبائی حکومت کو نظرانداز کرنے کی کوشش پر سخت تحفظات کا اظہارکرچکے ہیں۔ اوردوئم وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے بیان کےبعد جب انھوں نےآرٹیکل 149 (4) کے ممکنہ استعمال کی طرف اشارہ کیا،جس کے تحت کراچی کو وفاق کےاختیارمیں دیا جاناہے۔ یہ بہتر ہےکہ وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ سندھ اور میئر کراچی کے ساتھ سہ فریقی اور کھلی گفتگو کریں۔ وزیر اعظم ، وزیراعلیٰ اور میئر کے ہمراہ کمیٹی کی سربراہی بھی کر سکتے ہیں ، جس سےایڈہاکزم پر کام کرنے کے بجائے بیوروکریسی کو ایک سخت پیغام جائےگا۔ کراچی میں نئی مردم شماری کرواکےآغازکیاجاسکتاہے،کیونکہ تقریبا تمام فریقوں نے اس پر اپنا اعتراض اٹھایاہے۔ جب تک آپ کو صحیح آبادی کا پتہ نہیں چلتا، آپ شہر کے بنیادی مسائل کو حل نہیں کرسکتےہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کو فوری طور پر سڑکوں کی مناسب اوردیرپا مرمت کےکاموں کی ضرورت ہے۔ یہ کمیٹی بھی اسی طرزپربنائی جاسکتی ہے جس طرح 2013 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نےʼایپکس کمیٹیʼ تشکیل دی تھی اور اس میں وزیراعلی ، گورنرسندھ اور میئر کراچی بھی شامل تھے۔ وزیر اعظم کوسرکلرریلوے،گرین لین بس سروس یا کسی بھی دوسرے میگا پروجیکٹس جیسے معاملات میں قانونی راستہ اختیار کرناہوگا۔ دوئم، گزشتہ چند سالوں میں مکمل ہونےوالے بہت سے پراجیکٹس بشمول اوورہیڈبریجز،انڈر پاس سے واضح طورپر نااہل انجینئروں اورنام نہاد ماہرین کی نشاندہی ہوتی ہے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی منصوبہ مستقل ٹریفک جام کے مسئلے کوحل نہیں کرسکا۔۔ دوسرا مسئلہ روڈ سائڈ ریسٹورانٹس ہیں ، جو عملی طورپراورغیرقانونی طورپربڑےپیمانے بڑےشادی ہالوں کے علاوہ سروس روڈز، فٹ پاتھ پر قبضہ کرچکے ہیں۔ ۔ بدقسمتی سے ، پچھلی پانچ دہائیوں میں بلدیاتی حکومتوں کوہمیشہ سول حکمرانی کے تحت ہی نقصان اٹھاناپڑا، جس کا اندازہ اس بات سے کیاجاسکتاہےکہ بلدیاتی انتخابات زیادہ ترفوجی حکمرانی کےتحت ہوئےجبکہ سول گورنمنٹ اکثراس طرح کےانتخابات سے گریز کرتی ہے۔ ماضی میں 1979 اور 1983 میں کراچی نےجماعت اسلامی اورپی پی پی جیسی ان تمام جماعتوں کےلئےبلدیاتی انتخابات میں ووٹ دیاتھا،دونوں جماعتوں کے میئر اور ڈپٹی میئربھی آئے تھے۔ 1987 میں ایم کیو ایم، 2001میں ایم کیوایم کی جانب سے بائیکاٹ کےبعد دوبارہ جماعتِ اسلامی، 2003 میں ایک بار پھر ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم نے2017 میں اپنی پوزیشن برقراررکھی۔ لیکن یہ مسئلہ ابھی تک برقرار ہے کیونکہ سٹی گورنمنٹ کراچی کا34 فیصد حصہ کنٹرول کرتی ہےاوروزیراعظم کو اس مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور اگر وہ خودہی طاقت ور کمیٹی کی سربراہی کریں اور وزیراعلیٰ کو کپتان بنائیں اور پھر کام کی نگرانی کریں تو یہ دوبارہ حل ہوسکتاہے۔

تازہ ترین