میں مختلف دفاتر کا چکر لگا کر تھک چکا تھا۔ سوچا تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے چائے کی چسکی لی جائے۔ سیکرٹریٹ کی کینٹین میںچائے پینے کے لیے بیٹھ گیا۔ میری نظر اپنی دائیں جانب بیٹھے بگٹی واسکٹ پہنے ایک نوجوان پر پڑی۔ بگٹی واسکٹ اور لباس کی اپنی ایک انفرادیت ہے جو پہننے والے کو سب سے منفرد بنا دیتا ہے۔ اس نوجوان کے چہرے پر نمایاں پریشانی کو بھانپ کر سوچا ذرا اس کی دلجوئی کی جائے۔ نوجوان نے اپنا نام جمیل بتایا، وہ ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی کا رہائشی تھا۔ تعلیم بی اے تک حاصل کی تھی، چونکہ مزید تعلیم کی سہولت ڈیرہ بگٹی میں میسر نہیں تھی لہٰذا اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اور ساتھ ہی غمِ روزگار نے آن گھیرا۔ نوجوان دو یوم قبل کوئٹہ آیا تھا اور ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت سے ملنے کی کوشش میں تھا تاکہ ایک حکومتی محکمے میں کلاس فور کی اسامی کے لئے سفارش کروا سکے۔ جس میں اب تک وہ کامیاب نہ ہو سکا تھا۔ اس کی یہ کوشش ناامیدی کا روپ دھار رہی تھی۔ لہجے میں تلخی کا عنصر نمایاں تھا۔ چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ صوبے کے وہ نوجوان جو پڑھنے لکھنے کے باوجود ملازمت نہیں حاصل کر پاتے، ان کی کیا حالت ہوتی ہے۔ لمحے بھر کے لئے میرا خیال ان عناصر کی طرف بھی گیا جو ایسے نوجوانوں کو منفی رجحانات کی طرف مائل کرتے ہیں اور صوبے میں بدامنی پیدا کرتے ہیں۔
جب میں نے اس سے کہا کہ آپ کے علاقے کو تو اللہ تعالی نے سونے یعنی گیس کی دولت سے نوازا ہے، جس سے پورا پاکستان گزشتہ 4دہائیوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے تو کیا وہاں نوجوانوں کے روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں؟ تو گویا اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ وہ ایک ایک کرکے اپنے علاقے کی محرومیوں کو بیان کرنے لگا جیسے ڈیرہ بگٹی کے مسائل کو چٹکیوں میں حل کرنے والا کوئی مسیحا اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ سوئی گیس کی ٹھیکے دار کمپنی نے اپنے ملازمین کے بچوں کے لئے ایک اردو میڈیم اسکول بنایا جس میں محدود تعدادمیں عام بگٹیوں کے بچوں کو داخلہ ملتا تھا۔ پھر 1990کی دہائی کے اواخر پر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے ایک اسکول کی بنیاد رکھی جس میں ذرا معیاری تعلیم کی سہولت حاصل تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر گیس کمپنیاں کچھ نہ کرتیں، صرف ڈیرہ بگٹی میں شروع سے 5یا 6معیاری اسکول قائم کر دیتیں تو آج بگٹی بچے نہ صرف حکومتی نظام کا حصہ ہوتے بلکہ اپنے ضلع کے دیگر بگٹیوں کو ساتھ لے کر بہتر مستقبل کی جانب گامزن ہوتے۔ سوئی ٹائون سے 5کلو میٹر دور پوری تحصیل سوئی میں معیاری ہائی یا مڈل اسکول تو درکنار معیاری پرائمری اسکول بھی کوئی نہیں ہے۔ اسپتالوں کی صورتحال تو اور بھی دگرگوں ہے۔ گیس کمپنی نے اپنے ملازمین کے لئے ایک اسپتال بنایا تھا، جس میں عام بگٹیوں کے لئے علاج کروانا تقریباً ناممکن تھا۔ 2004ء میں کمپنی نے عوامی غیظ و غضب سے بچنے کے لئے ٹرسٹ کے پیسوں سے عام بگٹیوں کے لئے ایک اسپتال بنایا جو اب تک صوبائی حکومت اور کمپنی کے درمیان پنگ پانگ بال بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پوری تحصیل کی آبادی ایک دیہی مرکزِ صحت پر انحصار کرتی ہے۔ جس میں کبھی کبھار ایک ڈاکٹر صاحب تشریف لاتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی تو یہ ہے کہ خواتین کے لیے پوری تحصیل میں کوئی انتظام نہیں اور ایمرجنسی کی صورت میں انہیں صادق آباد اور رحیم یار خان لے جانا پڑتا ہے، اکثر و بیشتر خواتین علاج سے قبل ہی راستے میں اللہ کو پیاری ہو جاتی ہیں۔ یہ اس تحصیل کی روداد ہے جہاں سے روزانہ اربوں کی گیس پورے پاکستان کو مہیا کی جاتی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ سوئی سے گیس نکال کر پورے ملک میں انڈسٹری قائم کی گئی، روزگار کے مواقع پیدا ہوئے لیکن سوئی کے گریجویٹ نوجوان کلاس فور کی اسامیوں کے لئے مسندِ اقتدار والوں کے محتاج ہیں۔
باوجود اس کے کہ ضلع ڈیرہ بگٹی صوبائی اور ملکی سیاست میں ہمیشہ موضوع بحث رہا اور اخباری سرخیوں اور الیکٹرونک میڈیا نے بھی اسے اہمیت دی ہے لیکن گیس کمپنی اور عام بگٹی میں گزشتہ 65سال سے جاری عدم اعتماد کی فضا کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا فیصلہ کرنے والا کوئی منصف سامنے نہیں آیا جس کی وجہ سے آسانی سے حل ہونے والے مسائل بھی بدستور التوا کا شکار ہیں۔ جمیل بگٹی نے الوداعی مصافحہ کیا اور مجھے حیران و پریشان چھوڑ گیا۔ چائے ختم ہو چکی تھی، جمیل کی گفتگو نے مجھے یاد دلایا کہ سوئی گیس کے تعطل کے شکار معاہدے کی صورتحال معلوم کروں، میں سیکرٹری انرجی کے دفتر کی طرف چل پڑا۔ اور سوچتا رہا کہ اس طرح کے کتنے اور نوجوان بے چینی کا شکار ہیں جنہیں نوکری نہیں ملتی، ملازمت نہیں ملتی۔ کتنی بڑی تعداد میں بلوچستان کے نوجوان ہیں، جنہیں ٹیکنیکل ٹریننگ دی جا سکتی ہے، جو تربیت حاصل کرنے کے بعد صوبے کی خدمت کر سکتے ہیں لیکن اس طرف کوئی نہیں سوچتا۔ اس غیر متوقع ملاقات کے بہت سے پہلو تشنہ رہ گئے ہیں، جو پھر کبھی!