• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ آج تک جنرل ڈائر کو یاد کرتی ہے کہ کس طرح اپنے نوے نوجوانوں کو ساتھ لیکر اس نے کس بیدردی سے 11؍منٹ تک گولیاں چلائی تھیں، ہزاروں لوگ زخمی اور قتل ہوئے، جلیانوالہ باغ کے پانچ دروازے ہیں، دن تھا تیرہ اپریل 1919، ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی گرفتاری کیخلاف جلوس نکلا تھا۔

اس دن بیساکھی کا میلہ بھی تھا، ہندو، مسلمان اور سکھ سب کے سب جلوس میں شامل جلیانوالہ باغ میں آئے تھے اور انگریزوں کیخلاف نعرے لگا رہے تھے، جنرل ڈائر گولڈن ٹیمپل کے پچھلے دروازے کی جانب سے اندر آیا اور اندھا دھند گولیاں چلا دیں جن لوگوں نے جان بچانے کی کوشش کی، انہوں نے کنویں میں چھلانگ لگا دی، پر اس ظالم کے کارندوں نے ہر دروازے سے نکلنے کی کوشش کرنے والے کو گولیوں کا نشانہ بنایا، مرنے اور زخمی ہونے والے 24؍گھنٹے تک وہیں پڑے رہے کہ شہر میں کرفیو لگا دیا گیا تھا پھر بھی مورخوں نے لکھا ہے کہ ایک ہزار سے زائد مارے گئے اور 120؍کے قریب زخمی ہوئے۔ جلیانوالہ باغ 6؍ایکڑ میں پھیلا ہوا ہے، پندرہ منٹ میں ہی اتنے ہزاروں لوگ گولیوں کا نشانہ بنے، 1997میں جب ملکہ الزبتھ ہندوستان دورے پر آئیں تو انہوں نے پوری قوم سے اس حادثے اور المیے پر معافی مانگی۔

یہ المیہ مجھے آج کیوں یاد آرہا ہے، آج کشمیر میں کرفیو لگے ایک ماہ سے زائدہوگیا، لوگ گھروں میں نظر بند ہیں، جو نکلتا ہے اور جو نہیں نکلتا اس کو بھی فوجی پکڑکر لے جاتے ہیں، کسی کی کھال اتارتے، کسی بزرگ کی داڑھی جلاتے اور کسی بچے کی آنکھ میں پیلٹ مارتے ہیں، آج کے جنرل ڈائر کو آٗپ سب وزیراعظم انڈیا کہتے ہیں بلکہ میں نے خود جلیانوالہ باغ میں محسوس کیا ہے کہ آج بھی کنویں سے خون کی بو آتی ہے، سری نگر کی سڑکیں بھی گواہ ہیں کہ لوگ تو گھروں میں مقید ہیں، کہنے کو اسکول اور دفاتر کھول دیئے گئے ہیں مگر ایک بھی شخص باہر نہیں نکلتا کہ باہر نکلنے والوں کے بدنوں کو بجلی کے جھٹکوں سے داغا جاتا ہے، عورتیں بھی اگر جلوس نکالیں تو ان پر بھی گولی چلائی جاتی ہیں مگر سانحہ جلیانوالہ کے وقت تو انگریزوں کی حکومت تھی، رولڈ ایکٹ کے تحت دفعہ 144نافذ تھی، 5؍اگست اور 13؍اپریل کے المیے میں کتنی مماثلت ہے مگر اس وقت تو تاریخ لکھی جا رہی تھی، مارنے والوں اور مرنے والوں کی نشاندہی ہو رہی تھی، آج بھی بھارتی پنجاب کی حکومت نے جس قدر ممکن تھا گولیوں کے نشانات کو محفوظ رکھا ہے، گولڈن ٹیمپل سے نکلنے والے لوگ، اس چھوٹے سے دروازے کے اندر رقم ہوئی خونی تاریخ کو دیکھتے اور لکھاوٹ کو پڑھتے ہیں۔

کشمیر میں تو ایک مہینے بعد بھی دوچار غیر ملکی ایجنسیوں کو جانے کی اجازت ہی ہے، ایک پروفیسر نے بی بی سی پر اپنا روزنامچہ لکھنا شروع کیا ہے، نام بدل دئیے ہیں، آخر کشمیری چاہتے کیا ہیں، وہ دوسرے نمبر کا شہری نہیں بننا چاہتے، وہ تو رائے شماری کا مطالبہ 70؍سال سے کر رہے ہیں، شیخ عبداللہ کی پوتیاں اور نواسیاں بھی اپنے اجداد کو کوس رہی ہیں، بچے گھروں میں اکٹھے ہو کر اپنے بڑوں سے پڑھنا لکھنا سیکھ رہے ہیں، گھروں میں 5؍اگست کا اعلامیہ سنتے ہی لوگوں نے راشن اکٹھا کرنا شروع کیا تھا، جس کو وہ آج تک سنبھال سنبھال کر اپنے پیٹ کی بھوک کو مٹا رہے ہیں۔ابھی تک روہنگیا کے بے گھر مسلمانوں پر دنیا رو رہی تھی جیسا کہ یمن میں اسپتالوں اور جیلوں تک پہ بمباری کی جارہی ہے۔ اسی طرح انڈین حکومت کی دیدہ دلیری تو دیکھیں کہ 90؍لاکھ مسلمانوں کو آسام سے نکل جانے یا فریاد کرنے کیلئے 4؍ہفتے دیئے ہیں، اس میں ظلم و ستم تو یہ ہے کہ انڈیا کے گزشتہ صدر کے خاندان کو بھی یہ نوٹس ملا ہے، ابھی تو سامنے عراق اور شام کے ہجرت زدگان پناہ مانگتے سارے یورپ میں خوار ہو رہے ہیں، میکسیکو کے لوگ امریکی بارڈر پر مہینوں سے پڑے ہیں، یہ عالمی امن کے ادارے کیا صرف ان مظلوموں کے اعداد و شمار بنانے کیلئے ہیں، یونیسیف اور دیگر بین الاقوامی ادارے آخر کشمیریوں کی مدد کیلئے کیوں پہنچ نہیں رہے ہیں، آخر سوئٹزر لینڈ بھی تو کسی ملک، کسی پارٹی کا حصہ نہیں ہے، کشمیر آزاد ہو کر اپنی بہتر شناخت بنائے گا۔

آئرلینڈ کی آزادی یا مشرقی تیمور کی آزادی کی کہانی تو تاریخ میں رقم ہے۔ چلو ایک منٹ کو مان لو کہ کشمیر میں دوسرے لوگ بھی آباد ہوں، کشمیری عوام کو آزادی اظہار اور ووٹ کی طاقت آزمانے کا موقع تو دیں، یہ کہیں نہیں تھا کہ مسجدوں کو تالے لگا دیئے جائیں۔ اسٹالن کے زمانے میں مدارس بند کردیئے گئے تھے پھر 1990سے اب تک سارے سینٹرل ایشین ممالک میں مذہبی آزادی ہے، کھلے عام اسلحہ کی فروخت پر پابندی ساری دنیا میں لگائی جائے، ورنہ ٹیکساس جیسے خونی واقعات بڑھتے چلے جائیں گے، کشمیر میں کتنے روزانہ مارے جا رہے ہیں اور کتنے گرفتار، یہ تفصیل شاید کبھی نہ مل سکے جیسے دوسری جنگ عظیم میں مرنے والوں کی تعداد کوئی صحیح نہیں بتاتا۔ ’’آہ جاتی ہے فلک پہ رحم کرنے کیلئے‘‘۔

تازہ ترین