اگرچہ اکیسویں صدی کے والدین، ماضی کے والدین کے برعکس زیادہ پڑھے لکھے اور باشعور ہیں لیکن اس کے باوجود بچوں کا استحصال اور ہر طرف زیادتی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ممکن ہے کہ بطور والدین ہم بھی کہیں غلطی یا لاپرواہی کررہے ہوں، جس کی وجہ سے بچوں کی تربیت اور حفاظت میں کوتاہی ہورہی ہو۔
جدید دور کے تقاضوں اور پُرآسائش زندگی کے حصول کی خاطر تعلیم یافتہ خواتین اپنے خاوند کے قدم سے قدم ملاکر چلنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ لیکن اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ والدین زندگی کی گاڑی چلاتے ہوئے اپنے بچوں کو مکمل طور پر ملازموں کے حوالے کرکے بے فکر ہوجائیں۔ جدید دور میں بچوں کی تربیت اور حفاظت کے حوالے سے اہم نکات درج ذیل ہیں۔
ملازمین کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں
خوشحال گھرانو ں یا ملازمت پیشہ خواتین کی بیشتر تعداد بچوں کو آیا اور ملازموں کے حوا لے کردیتی ہے۔ بچوں سے نالاں رہنے والے ملازمین والدین کی غیر موجودگی میں ان سے نامناسب رویہ اپنانا شروع کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر والدین کی عدم موجودگی میں انھیں مارنا ،پیٹنا اور زبردستی کھانا کھلانا، اس طرح کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر وائرل بھی ہوتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں انٹرنیٹ پر موجود ایک 6سے 8ماہ کے بچے کی ویڈیو نے دل دہلا دیا، جس میں ملازمہ بچے کے رونے پر اسے مستقل تھپڑ رسید کررہی تھی۔ اگر آپ خود کو اور اپنی اولاد کو ایسے واقعات سے محفوظ رکھنا چاہتی ہیں تو بچوں کو مکمل طور پر ملازموں کے حوالے کرنے سے گریز کریں، ملازم ضرور رکھیں لیکن ان پرچیک اینڈ بیلنس لازمی ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے گھر کے مختلف حصوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب مفید ثابت ہوسکتی ہے، آپ گھر سے باہر رہتے ہوئے بھی موبائل کی مدد سے ان کیمروں کو کنٹرول کر سکتی ہیں اور جان سکتی ہیں کہ آپ کی غیر موجودگی میں ملازم کا بچوں کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوتا ہے۔ دو سری جانب ملازموں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ آپ کی بچے سے اٹیچمنٹ بھی ضروری ہے، اس لیے آفس اوقات کے بعد آپ بچے کو وقت ضرور دیں۔ گھر واپسی پر بچوں سے ان کی دن بھر کی مصروفیات کے بارے میں لازمی جانیں۔ اس وقت آپ کا رویہ جارحانہ ہونے کے بجائے دوستانہ ہونا چا ہیے تاکہ بچہ آپ سے دور نہ ہو اور نہ اس کے رویے میں منفی تبدیلیاں ڈیرے جمائیں، بچے پر آپ کی توجہ بعد کے کسی پچھتاوے سے محفوظ رکھے گی۔
بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں
بچے کی تربیت ہی نہیں اس کی مثبت اور منفی شخصیت کی تعمیر میں بھی والدین کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ بچہ اگر بڑا ہوکر کسی دوسرے کے سامنے والدین کے لیے شرمندگی یا پچھتاوے کا باعث بنے تو اس میں نمایاں قصور خود والدین کا ہوتا ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے بچے کی تمام تر سرگرمیوں پر بچپن ہی سےکڑی نظر رکھیں، یہ جاننے کی کوشش کریں کہ بچے کے دوست کون ہیں، وہ کس جگہ کھیلتا ہے اور اسکول میں کن دوستوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ یہی نہیں، بچے کی آن لائن دنیا پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے، فیس بک پراس کی فرینڈ لسٹ میں لازمی طور پر شامل رہیں اور اس کے سوشل میڈیا فرینڈز کو چیک کرتی رہیے۔ جس دوست کے حوالے سے ذہن میں ذرا سا بھی شبہ ہو، اس کو اچھی طرح کھنگال لیجیے اور اگر دل مطمئن نہ ہو تو دوستی ہی دوستی میں اپنے بچے کو اس مشکوک دوست سے دور کر دیجیے۔ بچوں کے لیے ا سکرین ٹائم مختص کرنے کے بعد آپ بری الذمہ نہیں ہوجاتیں بلکہ آپ کا فرض ہے کہ اس دوران آپ نظر رکھیں کہ آپ کا بچہ کون سی ویب سائٹس، کون سا سوفٹ ویئر اور کون سی ایپس استعمال کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ آن لائن ہوتے وقت کن دوستوں سے چیٹنگ کرتا ہے اور اس دوران کیا گفتگو کرتا ہے، ان تمام باتوں سے آپ کا آگاہ ہونا ضروری ہے ۔
بے جا خواہش پوری کرنے سے گریز کریں
بچے شعور کی منزل میں قدم رکھتے ہوئے نت نئے جذبوں اور خواہشوں کا اظہار کرنے لگتے ہیں، اس دوران ایک ماں کو نہایت محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کی خواہشا ت پوری کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے والدین کے دو طرح کے رویے دیکھنے میں آتے ہیں ۔ایک میں والدین بچوں کی خواہشات فوراً پوری کردیتے ہیں تودوسرے میں والدین اسے ضد کہہ کر رد کردیتے ہیں۔ یہ دونوں رویے ہی بچے میں منفی رجحان پیدا کردیتے ہیں، اس حوالے سے والدین کو چاہیے کہ وہ ان ضروریات کو پورا کریں جو بے جا نہ ہوں۔
باڈی رائٹس
بچوں کے اغوا اور زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی شرح کم کرنے کے لیے والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کو بچپن ہی سے باڈی رائٹس کے بارے میں آگہی فراہم کریں۔ بچوں کو اس بارے میں بتائیں کہ کوئی بھی شخص آپ کے زیادہ قریب نہیں آنا چاہیے اور ان سے پوچھیں کہ کن لوگوں کے اور جسم کے کس حصے پر انہیں چھونے پر بُرا محسوس ہوتا ہے۔ ایسے ہی جب آپ کے بچے 3سال کی عمر کو پہنچیں تو انہیں جسم کے مخصوص اعضاء کو دھونے کا طریقہ سکھائیں اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کریں کہ کبھی کسی کو ان حصوں کو چھونے کی اجازت نہ دیں۔