• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نےکئی وکلا سے پوچھا۔ ہر طرف سےیہی آواز آئی ’’وزیر مملکت یا وفاقی وزیر کا اسٹیٹس، پاورز اور رائٹس آئین کے تحت نہ تو وزیراعظم کے معاونِ خصوصی کو دیئے جا سکتے ہیں نہ مشیران کرام کو۔ حقیقت میں ایک بہت بڑا آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ یہ بیس افراد جو معاون اور مشیر ہیں وہ آئینی طور پر کیبنٹ میٹنگ میں بھی شریک نہیں ہو سکتے کیونکہ انہوں نے حلف نہیں اٹھایا ہوتا۔ کسی بھی قسم کا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ صرف تجویز پیش کر سکتے ہیں۔ یہ موجودہ حکومت نے غیر آئینی کام کیا ہوا ہے۔ جس کا کسی وقت بھی چیف جسٹس آف پاکستان از خود نوٹس لے سکتے ہیں‘‘۔

اس وقت شہزاد اکبر، سردار یار محمد رند، علی نواز اعوان، شہزاد سید قاسم، فردوس عاشق اعوان، یوسف بیگ مرزا، افتخار درانی، ڈاکٹر ظفر مرزا، ذوالفقار بخاری، ندیم افضل چن، ندیم بابر، نعیم الحق، ثانیہ نشتر، شمشاد اختر اور عثمان ڈار معاون خصوصی ہیں۔ ان میں سے آٹھ کے پاس وزیر مملکت کا اسٹیٹس ہے اور ایک پاس وفاقی وزیر کا۔ شہزاد ارباب، امین اسلم، عبدالرزاق دائود، حفیظ شیخ اور عشرت حسین مشیر ہیں۔ ان پانچوں کے پاس وفاقی وزیر کا اسٹیٹس ہے۔

اصل قصہ یہ ہے کہ آئینی طور پر معاون خصوصی یا مشیر کو دیا جانے والے محکمے کی اصل پاور وزیراعظم کے پاس ہوتی ہے یعنی ایک طرح سے وزیراعظم خود ان محکموں کے سربراہ ہیں۔ معاون خصوصی ان کی مدد کرتے ہیں۔ کیبنٹ ڈویژن کی وزارت بھی وزیراعظم نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ یوں سچ تو یہی ہے کہ یہ 21وزارتوں کا بوجھ وزیراعظم نے خود اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے عمران خان نے ایسا کیوں کیا۔ کیا پی ٹی آئی کے باقی ایم این اے اس قابل نہیں تھے کہ وفاقی وزیر یا وزیر مملکت بن سکتے۔ یقیناً نہیں تھے، ورنہ عمران خان ضرور اُن سے کام لیتے۔ انہوں نے جیسے ہی حماد اظہر کی بہتر کارکردگی دیکھی، انہیں وفاقی وزیر بنا دیا مگر یہ اُس صورت میں ہوا کہ حماد اظہر کو بجٹ پیش کرنے کا موقع ملا تو اس کی صلاحیتیں کھل کر عمران خان کے سامنے آئیں۔

پی ٹی آئی کے کارکن یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا یہ فیصلہ قطعاً درست نہیں۔ یہ لوگ جن کے ہاتھ میں اس وقت حکومت ہے، ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ انہوں نے الیکشن نہیں لڑنا۔ یہ تو ایک طرح سے ٹیکنو کریٹس ہی ہیں جو حکومت پر قابض ہو گئے ہیں۔ پھر ان ٹیکنو کریٹس پر الزامات بھی بہت زیادہ لگائے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ٹیکنو کریٹس یا تو خود سرمایہ دار ہیں یا سرمایہ داروں کے نمائندے ہیں اور حکومت میں شامل ہو کر ان کےمفادات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ندیم بابر بجلی پیدا کرنے والی اورینٹ پاور نامی کمپنی کے سابق مالک ہیں مگر اُس کمپنی میں ان کے شیئرز اب بھی ہیں اور باقی شیئرز انہوں نے کسی اپنے عزیز کے نام منتقل کئے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر اللہ مرزا صحت کے معاون خصوصی ہیں۔ وہ عالمی ادارۂ صحت میں ادویات کے معاملات دیکھتے تھے۔ انہیں عامر کیانی کی جگہ پر لگایا گیا ہے۔

عامر کیانی سے صحت کی وزارت کرپشن کے الزام میں واپس لی گئی تھی مگر پھر انہیں پی ٹی آئی کا جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا۔ اطلاعات کی وزارت فردوس عاشق اعوان کے حوالے کی گئی۔ کئی مہینے پہلے کی بات ہے وہ مجھے اسلام آباد کلب میں ملی اور کہنے لگی کہ عمران خان سے ملاقات کی کوئی صورت نہیں نکل رہی، میری مدد کرو۔ میں نے ان کے کچھ احباب سے رابطے کرائے۔ عمران خان سے ملاقات کے لئے راہ ہموار کی۔ ملاقات ہوئی تو محترمہ کو اطلاعات کی وزارت سے سرفراز کر دیا گیا اور بیچارے یوسف بیگ مرزا منہ دیکھتے رہ گئے۔ افتخار درانی سب سے بہتر معاون خصوصی تھے۔ اچھا کام کر رہے تھے۔ کئی برسوں سے اسی عہدے پر تھے یعنی پی ٹی آئی کا میڈیا سیل دیکھتے آ رہے تھے۔ انہیں فاٹا کے انتخابات کے لئے پشاور بھیجا گیا تھا مگر ابھی تک واپس نہیں بلایا گیا۔

وزیر خزانہ اسد عمر جن سے بڑی توقعات تھیں، افسوس انہیں وقت نہیں دیا گیا۔ چند ماہ بعد ہی ان کی جگہ حفیظ شیخ کو لے آیا گیا حالانکہ وہ پرویز مشرف اور آصف زرداری کے دور میں بھی اِسی عہدے پر فائز رہے تھے اور معیشت میں کوئی بہتری نہ لا سکے تھے۔ بیرسٹر شہزاد اکبر جنہیں احتساب کے معاملات سونپے گئے ہیں، وہ احتساب کو صرف اتنا جانتے ہیں کہ پہلے نیب کے وکیل رہ چکے ہیں۔ وزیراعظم کے سیاسی امور کے معاون خصوصی نعیم الحق بھی ایک غیر منتخب شخصیت ہیں مگر وہ بہت طویل عرصہ سے عمران خان کے معاونِ خاص ہیں۔ مجھے اُن سے بھی شکایت ہے کہ ان کی موجودگی میں عمران خان ایک بڑی سازش کا شکار ہو گئے۔

بہرحال یہ بات طے شدہ ہے کہ ہر آتے ہوئے لمحے میں عمران خان منتخب شدہ ارکان سے دور ہو رہے ہیں اور ٹیکنو کریٹس کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ وزیراعظم کسی صورت میں بھی ان غیر منتخب افراد سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔ اب تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں وزارت خارجہ کا قلمدان شاہ محمود قریشی سے واپس لیا جا رہا ہے اور ان کی جگہ بھی عسکری اور سفارتی امور میں مہارت رکھنے والے کسی معاون خصوصی کی خدمات حاصل ہونے والی ہیں۔

یہ جو منتخب شدہ اور غیر منتخب شدہ افراد کی حکومت میں کشمکش جاری ہے، اس کا سب سے زیادہ فائدہ بیورو کریسی نے اٹھایا ہے کیونکہ غیر منتخب شدہ افراد کے اپنے پاس تو کسی طرح کے آرڈرز کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، وہ بیورو کریٹس کے ہی مرہون منت ہوتے ہیں۔ اس لئے ٹیکنو کریٹس کی وزارتوں میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو بیورو کریٹس چاہ رہے ہیں۔ عمران خان کو غیر منتخب لوگوں نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ بیورو کریسی ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ پارلیمانی حکومت کو روز بروز کمزور کیا جا رہا ہے۔ نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ عمران خان اس سازش کو بھانپنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ وہ بھی کیا کرتے، ان کے سامنے ہر طرف ایک ہی منظر کھڑا کر دیا گیا ہے مگر ابھی وقت ہاتھ سے نکلا نہیں۔

تازہ ترین