بلاشبہ عمران خان تحریک انصاف کے نام سے اپنی پارٹی کی بنیاد رکھ کر ہر خاص وعام کو انصاف فراہم کرنے اور تبدیلی لانے کا علم بلند کرکے اُٹھے اور عوام الناس نے چند سالوں میں ان کی خوب پذیرائی کی، جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار مل گیا۔ پہلے نعر ے تھے اور اب ان کا دورِ امتحان و آزمائش ہے۔ قرآن مجید میں قول و فعل کے تضاد کے شکار لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے انتہائی بیزاری کا اظہار فرمایا ہے۔ یوں تو ہر شعبہ زندگی میں انصاف کی فراہمی اور مثبت تبدیلی خان صاحب اور ان کی ٹیم کا فرض اولین ہے لیکن قومی زبان کو انصاف مہیا کرنا طویل عرصہ سے التوا میں ڈالا گیا ہے جو بلاشک ایک قومی مسئلہ ہے۔ ہمارے وزیراعظم لفظی اور سفارتی جدوجہد کے ذریعے مظلوم و محکوم اہلِ کشمیر کی بخوبی ترجمانی اور حمایت کر رہے ہیں۔ یہ امر قابلِ تحسین ہے لیکن اس غرض کے لئے زبانی جمع و خرچ سے بڑھ کر عملی اقدامات کی ضرورت ہے، جس کا وہ وعدہ فرماتے رہتے ہیں۔ وطن عزیز میں بھی ایک محکوم ہے جسے ہندو سامراج نے نہیں بلکہ اپنوں نے ہی قیام پاکستان سے لے کر آج تک بیرونی آقاؤں سے وفاداری کرتے ہوئے ایک بدیشی زبان کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ اہلِ شعور بخوبی جانتے ہیں کہ اس غلام کا نام ہماری قومی زبان اردو ہے۔
ہمارے قائدین روزِ اول سے کشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی گردانیں بجا طور پر کرتے رہے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ وہ ان پر عمل درآمد کی اپیلیں اور مطالبات کرتے نہیں تھکتے۔ یہ بالکل درست لیکن اس کا کیا کیا جائے کی آج تک ہمارے تمام حکمرانوں نے پاکستان کے ہر آئین کی نفاذِ اردو سے متعلق شق کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ سلسلہ انصاف کے موجودہ علمبردار حکمرانوں کے دور میں بھی جاری ہے۔ اس پر مستزاد کہ 8ستمبر 2015ء کو سپریم کورٹ نے بھی 90دن کے اندر اندر اردو نافذ کرنے کا حکم دیا لیکن اس پر عملدرآمد کے حوالے سے تمام پاکستانی بخوبی واقف ہیں۔ اس ضمن میں دلچپ امر یہ ہے جو دلچسپی کے ساتھ اپنے دامن میں عبرت کا پہلو بھی لئے ہوئے ہے، کہ جب سپریم کورٹ میں اردو کیس کی سماعت ہو رہی تھی تو اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں یہ بیان پیش کیا کہ میری حکومت 90دن کے اندر اردو کو ہر سطح پر نافذ کر دے گی۔ ابھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ستمبر کے آخر میں ہی موصوف نے جنرل اسمبلی میں انگریزی میں خطاب فرمایا اور واقفانِ حال نے بعد میں بتایا کہ وہ تو اردو میں تقریر کرنا چاہتے تھے لیکن وہاں پاکستانی مندوب نے انہیں انگریزی میں تقریر پر آمادہ کیا۔ اگرچہ اردو کے نفاذ کے حوالے سے لولے لنگڑے اعتراضات کے مسکت جوابات کے لئے ایک الگ کالم درکار ہے لیکن اپنے مدعا کو مدلل طور پر پیش کرنے کی غرض سے اتنا عرض ہے کہ علامہ اقبال، قائداعظم، دیگر بانیانِ پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو اور سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کیا انگریزی کی بین الاقوامی اہمیت سے ناواقف تھے کہ ان سب نے متفقہ طور پر اردو کو وطن عزیز کی قومی زبان قرار دیا؟
اس وقت ہمارے ملک میں نافذ متذکرہ آئین کی شق 251کی رو سے 15اگست 1988کو پورے ملک میں عدالتوں، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں اردو کا مکمل نفاذ لازمی تھا۔ چند ماہ پیشتر لاہور کے ایک کلب میں ایک سیمینار کے دوران ہمارے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود فرمانے لگے کہ ہماری پوری قوم انگلش میڈیم کو قبول کر چکی ہے، اس وقت راقم نے سوال کیا آپ 2فیصد انگریزی اقلیت کو پوری قوم کہتے ہیں، کیا یہ انصاف ہے؟ فرمانے لگے، ہاں! وہ تو سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے البتہ اب ہم دوسرے موضوع پر بات کرتے ہیں۔ وزیر تعلیم کی سوچ اور ان سے اخذ کردہ نتیجہ پر بات کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حکمران تو بدل جاتے ہیں لیکن دیگر قومی زبان کے ساتھ ساتھ اردو کو غلامی کی زنجیروں سے نجات نہیں ملتی۔ وزیراعظم 27ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے چلے ہیں اور وہ اس میں بڑے زور دار طریقے سے ہمارا قومی مؤقف بیان کرنے والے ہیں، یقیناً وہ کشمیر، فلسطین، میانمار اور افغانستان و دیگر خطوں کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں پُرزور اور مدلل آواز بلند کریں گے۔
یہی ان کے منصب کا تقاضا ہے، اس موقع پر ان سے عاجزانہ گزارش ہے کہ وہ ضرور مجبوروں، محکوموں اور غلاموں کی آواز بن کر اس بین الاقوامی پلیٹ فارم پر دلیرانہ خطاب فرمائیں لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ جنرل اسمبلی کی وہ حیثیت ہرگز نہیں جو سلامتی کونسل ہی ہے۔ لہٰذا ہم محض اس سے اچھی امیدیں ہی وابستہ کر سکتے ہیں۔ اسی تناظر میں جو چیز آپ کے اختیار میں ہے، وہ قومی زبان کو انصاف فراہم کرتے ہوئے انگریزی زبان کے استبداد سے آزادی دلانا ہے۔ ازراہِ کرم ملی حمیت اور قومی غیرت و خودداری کا ثبوت دیتے ہوئے جنرل اسمبلی میں اردو میں دلیرانہ خطاب کریں۔ ناچیز آپ کو یقین دہانی کراتا ہے کہ اس سے نا صرف آپ کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوگا بلکہ آئین اور انصاف کا علم بھی بلند ہوگا، نیز یہ گزشتہ سال ہمارے وزیر خارجہ کے جنرل اسمبلی میں قومی زبان میں خطاب کا یہ خوبصورت تسلسل ہوگا۔