پاکستان کے مختلف شہروں، دیہات میں بسنے والے ہزاروں غریبوں کی آس اور امید کا نام چوہدری ظہور الٰہی تھا۔ انہوں نے کوئی اسپتال تعمیر نہیں کیا تھا مگر بیماروں کا علاج کرواتے تھے، انہوں نے کوئی این جی او تخلیق نہیں کی تھی مگر سماجی خدمات سب سے بڑھ کر انجام دیتے تھے۔ ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کے اصول پر سختی سے کاربند تھے۔ وہ جرات کا ایسا پیکر تھے جنہوں نے نہ جھکنا سیکھا نہ بکنا۔ وہ بھٹو آمریت سے اس وقت ٹکرائے جب ملک جمہوریت کے پردے میں بدترین سول ڈکٹیٹر شپ کی زد میں تھا۔ ان کا عوام سے اتنا گہرا رابطہ اور اتنا گہرا رشتہ تھا کہ عوام کے دکھ ان کے اپنے دکھ بن گئے تھے۔ ان کے ہمدردی کے چند بول، مشورہ یا رقعہ ضرورت مند کی زندگی کا دھارا پلٹ دیتے تھے۔ کبڈی کے کھلاڑی، باڈی بلڈرز، شہسوار، شاعر، ادیب، گلوکار، فنکار، ماہر فن اساتذہ اور صحافت سمیت زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جہاں ان کے نیازمند نہ ہوں۔ حبیب جالب کیلئے چوہدری صاحب بڑا نرم گوشہ رکھتے تھے اور اسے دوریش شاعر کہتے تھے۔ چوہدری ظہور الٰہی سے سفارش کرانے کیلئے ضرورتمند ہونا ہی کافی تھا۔ رشتے ناتے، بڑے چھوٹے، امیر غریب کا کوئی سوال سرے سے ہوتا ہی نہیں تھا۔ لوگوں کے مسائل سن کر وہ بے چین ہو جاتے اور جو ان کے بس میں ہوتا وہ کرنے سے دریغ نہ کرتے۔ ان کی طاقت غریب کی طاقت تھی۔ کشمیریوں، سکھوں اور فلسطینیوں سے انہیں بے پناہ ہمدردی تھی۔ وہ بچوں پر بے تحاشا کتابیں لادنے کے بھی خلاف تھے۔ بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دئیے جانے کے حامی تھے۔ وہ اپنی تقاریر میں جس خوبی سے اشعار کو استعمال کرتے یہ انہی کا خاصا تھا۔ چوہدری ظہور الٰہی کی تقریر مدلل آسان اور عام فہم ہوتی۔ ہر جگہ اپنی خطابت کی داد پائی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ آپ سے باتیں کر رہے ہوں اور پورے مجمع میں صرف آپ سے مخاطب ہیں۔ چوہدری ظہور الٰہی قومی زندگی کے ہر شعبے کے افراد کے مشکل وقت میں کام آیا کرتے تھے اور لوگوں کے موجودہ اور مستقبل کے مسائل پر بہت گہری نگاہ رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے 1969ء میں حفیظ خان اور جاوید ہاشمی ایک مضبوط ٹیم کے طور پر پنجاب یونیورسٹی کی سیاست میں اترے۔ دونوں نے ریکارڈ ووٹ لیے تھے۔ بایاں بازو دوسری مرتبہ جہانگیر بدر کی قیادت میں رجعت پسندوں سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے یونیورسٹی کے انتخابات میں اترا۔ ایشیا سرخ ہے، ایشیا سبز ہے کے نعروں سے یونیورسٹی گونج ہی رہی تھی کہ پنجاب یونیورسٹی کے صدر حفیظ خان کا ایک اسکینڈل اخباروں کی زینت بن گیا۔ بائیں بازو کے اخبارات اور طلبہ نے اس واقعے کو خوب اچھالا۔ جس وقت حفیظ خان کا کمرہ سیل کیا گیا اس وقت راقم بھی وہاں موجود تھا۔ چنانچہ اس واقعہ کی باز گشت جب زیادہ بڑھ گئی تو مارشل لاء حکومت نے ایک مارشل لاء انکوائری ٹیم کو پنجاب یونیورسٹی واقعہ کی تفتیش کیلئے روانہ کر دیا۔ اگلی صبح انکوائری آفیسر نے میرا بیان لینا تھا۔ چوکیدار نے میرے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا، میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ کار میں چوہدری صاحب آئے ہیں۔ چند دن پہلے چوہدری صاحب ہاسٹل کی حلف برداری کی ایک تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر تشریف لائے تھے، اس لیے سب لوگ چوہدری صاحب کو پہچانتے تھے۔ میں نیچے پہنچا تو ڈرائیونگ سیٹ پر خود چوہدری صاحب بیٹھے تھے۔ انہوں نے مجھے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا اور بتایا کہ تمہارے ہاسٹل کا ٹیلیفون خراب ہے، اس لیے مجھے خود آنا پڑا۔ صبح مارشل لاء کی انکوائری ٹیم آ رہی ہے تمہارا بھی بیان ہوگا، جو سچ ہے صرف وہ بیان کرنا۔ بائیں بازو کی محبت میں کہیں اس ذہین نوجوان کو شہید نہ کروا دینا۔ میں نے چوہدری صاحب کو یقین دلایا کہ میں سچ کے سوا کوئی بات نہیں کروں گا۔ چنانچہ بائیں اور دائیں بازو کی سیاست سے بالکل آزاد ہو کر حفیظ خان کے حق میں گواہی دی۔ میں نے انکوائری آفیسر کو بتایا کہ ہم نے کسی لڑکی کو کمرے سے باہر یا اندر جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ تھے چوہدری ظہور الٰہی۔ 25ستمبر 1981ء کو لاہور ماڈل ٹائون میں دہشت گرد تنظیم ’’الذوالفقار‘‘ کے کارندوں نے چوہدری ظہور الٰہی کی گاڑی پر دستی بموں اور اسٹین گنوں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں چوہدری صاحب اور ان کا ڈرائیور نسیم موقع پر شہید ہوگئے تاہم چوہدری صاحب آج بھی اپنی یادوں، اپنے طرزِ سیاست اور اپنے افکار کی صورت میں ہم میں موجود ہیں۔