• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چینی کمپنیوں کا 40 ارب ڈالر کے بین الاقوامی اثاثے فروخت کرنے پر اتفاق

بیجنگ: ڈان وین لینڈ

ایک دہائی قبل ملک کی کارپوریشنز کے بین الاقوامی انضمام اور حصول کے بڑے کھلاڑی بننے کے بعد سے چینی کمپنیاں رواں سال پہلی بار عالمی اثاثوں کی خالص فروخت کنندہ بن گئیں۔

چینی گروپس کی حیثیت میں تبدیلی آرہی ہے ،جو حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں بکثرت اثاثوں کے خریدار رہے ہیں،چین میں معاشی نمو 30 سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے اور امریکا کے ساتھ تجارتی کشیدگی سے مینوفیکچررز کو کافی نقصان اٹھانا پڑررہا ہے۔

ڈیلوجک کے اعدادوشمار کے مطابق چینی کمپنیوں نے رواں سال اب تک 40 ارب ڈالر مالیت کے بیرون ملک اثاثوں کی فروخت پر اتفاق کیا ہے،جو گزشتہ پورے سال میں 32 ارب ڈالر کے اثاثوں کی فروخت سے زیادہ ہے۔دریں اثناء، چینی گروپس نے رواں سال صرف 35 ارب ڈالر مالیت کے بیرون ملک اثاثے خریدے ہیں، جس سے چین ایک عالمی خالص تاجر بن گیا۔

امریکا میں، جہاں اب چینی کارپوریٹ خریداروں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ضمنی کاروباری مفادات یا سرمایہ کاری فروخت کرنے کی کارروائی یا عمل اس سال 26 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہوا ہے، سال 2018 میں محض 8 ارب ڈالر کے بین الاقوامی اثاثے فروخت کیے گئے تھے۔

ڈیلوجک سے حاصل کردہ 2015 کے اعدادوشمار کے مطابق چینی کمپنیوں نے بیرون ملک تقریبا 100 ارب ڈالر کے اثاثوں کی خریداری جبکہ صرف 10 ارب ڈالر کی فروخت کی تھی۔تاہم،ڈیلوجک کے اعدادوشمار کے بارے میں فنانشل ٹائمز کے تجزیہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 2009 تک چین بیرون ملک اثاثوں کا خالص خریدار رہا ہے۔

متعدد کمپنیوں کے کاروباری حالات کافی بگڑ چکے ہیں جو صرف دو سال قبل تک امریکا اور یورپ میں اربوں ڈالر کے سودے کررہی تھیں۔کریڈٹ تک رسائی بھی سخت ہوگئی ہے،جس کے باعث حال ہی میں کچھ حصول کار یا تاجر عدم ادائیگی پر مجبور ہوگئے ہیں۔

2016 میں اب مارکیٹ میں آنے والی چینی ملکیت کے متعدد اثاثے نگل گئے تھے،اعلیٰ سرمایہ کاری کا سال جب چینی کمپنیوں نے بیرون ملک معاہدوں میں 200 ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ کیا جبکہ بلند سطح کے قرض لیے۔ناٹیکس میں انویسٹمنٹ بینکاری کےایشیا پیسیفک کے سربراہ رگھو نارائن نے کہا کہ آؤٹ باؤنڈ چینی سودوں کا سورج چڑھ رہا تھا ، چند ایسے تھے جن میں صنعتی سمجھ بوجھ کی کمی تھی۔وہ سودے جنہیں تو بہت زیادہ قرض مل گیا تھا لیکن سمجھ بوجھ کی کمی تھی، جس کے نتیجے میں اصل ہم آہنگی اب کم ہوتی جارہی ہے۔

ایک بار چین کے چند جارحانہ خریدار جو چینی حکومت کی زحمت سے دوچار ہیں،رواں سال فروخت ہونے والے چینی ملکیت اثاثوں کے ایک بڑے حجم میں حصہ ڈال رہے ہیں۔

مثال کے طور پر ایئرلائنز سے فنانس گروپ ایچ این اے،جس نے ہلٹن اور ڈوئچے بینک میں 2016 اور 2017 میں اربوں ڈالر کے حصص کی خریداری کی تھی، چین میں لیکویڈیٹی بحران کا سامنا کرنے کے بعد 2017 کے آخر سے کم از کم 20 ارب ڈالر کے اثاثوں کا بوجھ اتاردیا۔ایچ این اے نے سوئس فضائی خدمات کی کمپنی گیٹ گروپ کو رواں سال کے آغاز میں 14 ارب ڈالر میں آر آر جے کیپیٹل کو فروخت کیا۔

کچھ معاملات میں ، حکومت کا انتظام کرنے میں براہ راست ہاتھ رہا ہے۔

سیریل انکیوٹر انبنگ انشورنس ،جو 2017 میں حکومت کے تحت چلا گیا تھا، نے گزشتہ ہفتے کوریا کے میرا ایسسٹ کو 58 ارب ڈالر میں ہوٹلز کے گروپ سمیت اپنے عالمی پورٹ فولیو کا بیشتر حصہ فروخت کردیا ہے۔

کنزرویٹو جھکاؤ والے تھنک ٹینک امریکی انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے ایک رہائشی اسکالر ڈریک سیزرز نے کہا کہ اس سال کم حصول یعنی بیرون ملک اثاثوں کی خریداری میں کمی اور بڑھتی ہوئی فروخت ،امریکی مارکیٹ کھونے کے اندیشہ کے حصے کے طور پر ادائیگیوں کے عدم توازن کی وجہ سے غیر ملکی کرنسی کی کمی کا نتیجہ ہے۔

چین کے زرمبادلہ کے ریگیولیٹرز نے ان خدشات کے سبب حالیہ برسوں میں بیرون ملک حصول ملکیت کو قابو رکھنے میں مدد دی کیونکہ ان سودوں سے کاؤنٹیز کے ڈالر ذخائر ختم ہوجائیں گے۔امریکا اور چین کے مابین تجارتی تنازع اور امریکا کو برآمدات سے ڈالر کے بہاؤ میں کمی نے چین کے باہر ہونے والے معاہدوں پر کنٹرول کو سخت کرنے میں معاون کردار ادا کیا۔

تازہ ترین