وہ بھی کیا خوب صورت دور تھا، جب نیو کراچی سے ٹاور تک سنیما گھروں کو نئی فلم کی ریلیز کے موقعے پر برقی قمقموں سے دُلہن کی طرح سجایا جاتا تھا۔ سب سے زیادہ سنیما کراچی کے علاقے صدر میں تھے۔ سنیما گھروں کا ایک جال بچھا ہوا تھا۔ بدھ کے روز خواتین کے لیے فلم کے خصوصی شوز ہوتے تھے۔ سنیما گھروں میں قائم کینٹین کا اپنا حسن تھا، پان کے کیبن میں حسین یادیں قید تھیں۔
نئی فلموں کی ریلیز کے موقعے پر خوب ہنگامہ ہوتا تھا، ٹکٹوں کی آگے لگائی اور ٹکٹیں بلیک ہوا کرتی تھیں۔ سنیما گھروں میں پاکستان کے سیاست دانوں نے ہمیشہ گہری دل چسپی لی۔ سابق صدر آصف علی زرداری کا بھی سنیما انڈسٹری سے تعلق رہا۔ لندن میں اداکاری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اداکار طلعت حسین نے کراچی کے ایک سنیما گھر میں ٹکٹ چیکر کے طور پر کام کیا۔ قائد اعظم کی بہن مادرِ ملّت فاطمہ جناح نے نشاط سنیما کا افتتاح کیا۔ جسے چند برس قبل نذرآتش کردیا گیا۔
اب وہ کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے۔ سستی تفریح کی وجہ سے فلمیں اور ان کے گیت سپرہٹ ہوا کرتے تھے۔ جدید سنیما گھروں کی ابتدا ندیم مانڈوی والا نے لاہور کے ڈی ایچ اے سنیما سے کی۔ اور اس میں سب سے پہلے جیو اور شعیب منصور کی فلم ’’خدا کے لیے‘‘ نمائش پزیر ہوئی۔ تھری ڈی سنیما کا آغاز بھی کراچی سے ہوا۔
ایک زمانے میں کراچی کی گلیوں میں پردے پہ فلموں کی نمائش ہوتی تھی، ایک جانب حضرات اور دوسری جانب خواتین بیٹھ کر فلموں سے محظوظ ہوتی تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد فلم انڈسٹری نے تیزی کے ساتھ ترقی کی۔ فلم سازی کے کام میں تیز رفتاری کے سبب یہاں نئے سینما ہاؤسز کی ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا، جس کے نتیجے میں پُورے ملک میں نئے سینما تعمیر ہونے لگے۔ شہر کراچی میں یہ تعداد 126تک پہنچ گئی تھی۔
کراچی کا شمار پاکستان میں سب سے زیادہ سینما گھر والے شہر میں ہوتا تھا۔ آج پورے پاکستان میں اتنے سنیما گھر نہیں ہیں، جتنے کراچی میں ہوا کرتے تھے۔ آج 2019میں کوئی بھی پاکستانی فلم صرف 80/70 سینما گھروں میں ریلیز کی جاتی ہے، جب کہ بھارت میں نئی فلم 5 ہزار سنیما گھروں کی زینت بنتی ہے۔