کہتے ہیں کہ فن کار کی زندگی اپنے مداحوں کی پسند نہ پسند، تنقید و تعریف کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ اسی لیے اکثر اوقات فن کار یہی شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’کیا ہماری ذاتی زندگی بھی ہماری نہیں‘‘۔
ہر شعبہ زندگی کی طرح شوبز کی دنیا میں بھی فن کاروں کے درمیان یا ان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے تنازعات جنم لیتے ہیں،جن کے بارے میں جاننے کے لیے ان کے فینز بے تاب رہتے ہیں،لیکن فی زمانہ فینز کے لیے فن کار کی زندگیوں میں جھانکنا ماضی کی نسبت زیادہ آسان ہو گیا ہے ،جس کی اہم وجہ’’ سوشل میڈیا ‘‘ہے۔
’’ٹرینڈز،ٹاپ ٹرینڈز، ہیش ٹیگ‘‘ کی بھیڑ چال میں گویا ذاتی معاملہ جتنی تیزی سے’’قومی‘‘ بنتا ہے اس کی چند مثالیں گزشتہ دنوں سوشل میڈیا میں گردش کرتی نظر آئیں۔
کہیں سخت الفاظ استعمال کیے گئے اور کہیں پر مزاح انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا،گو کہ یہ معاملات خاصے گھمبیر اور پیچیدہ تھے، لیکن ان سے وابستہ فن کاروں نے بھی اسے ذاتی نہ سمجھا اور اپنے مداحوں کوپل پل کی خبر سوشل میڈیا پر اپ ڈیٹ کرتے رہے، جبکہ یہ معاملات اور تنازعات معاشرتی اور ثقافتی حوالوں سے خاصے اہم ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک تنازعے کےمیڈیا اور سوشل میڈیا پر خوب چرچے ہوئے ،جسے اب بھی چٹ پٹا بنا کرمختلف پلیٹ فارمز پر پیش کیا جارہا ہے۔ہوا کچھ یوں کہ لیجنڈ اداکار فردوس جمال نے چند روز قبل ایک ٹی وی شو کے دوران اداکارہ ماہرہ خان کے بارے میں کہا کہ ،ماہرہ کی عمر زیادہ ہو گئی ہے اور انھیں اب ہیروئین کے نہیں بلکہ ’ماں کے کردار ‘ادا کرنے چاہئیں۔
فردوس جمال کے اس بیان نے پاکستان کی شوبز انڈسٹری اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کر دیا اور بہت سے لوگوں نے فردوس جمال کے اس بیان کو ایک سینئر اداکار کی رائے جان کر سراہا جبکہ شوبز کے کئی حلقوں نےان کی شدید مذمت بھی کی۔
اس بیان کے ردعمل کے نتیجے میں ماہرہ خان کا بیان بھی سامنے آیا، اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر بہت ہلکے پھلکے انداز میں انھوں نے لکھا،’’یہ دنیا نفرت سے بھرپور ہے لیکن ہمیں محبت کا انتخاب کرنا چاہیے۔ ہمیں لوگوں کی رائے کو برداشت کرنا چاہیے۔
ہماری جنگ اس مخصوص سوچ کے خلاف ہونی چاہیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ کامیاب عورت ایک ڈراؤنی سوچ ہے ،لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔‘‘اس حوالے سے فیس بک اور ٹوئٹر پر بیان بازی کا ایک ماحول بن چکا ہے،جس میں اس بیان کے حق اور مخالفت میں لوگ اب بھی اظہار خیال کررہے ہیں۔
فن کار کا تعلق شوبز کی کسی بھی صنف سے ہو ان کے چاہنے والے اور ناقدین ان پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔یقیناً گلوبلائزیشن کے اس دور نے لوگوں کو قریب کر دیا ہے لیکن ساتھ معاشرےکی خوب صورتی اور بد صورتی کوبھی نمایاں کردیا ہے ،نہ صرف یہ بلکہ اس کے تبدل میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
سوشل میڈیا کی آمد کے بعد تو ذاتی یا پبلک لائف کا تصور عنقا ہوا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے شوبز سے تعلق رکھنے والی چند شخصیات سے بات چیت کی اور اُن سے اُن کے ذاتی تجربات کی بابت بھی دریافت کیا،ان شخصیات سے ہونے والی گفت گو نذر قارئین ہے:
ادبی خاندانی پس منظر رکھنے والی سینئر اداکارہ اسماء عباس نے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ تنازعات ہر جگہ ہی جنم لیتے ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر انہیں جس طرح سے اچھالا جاتا اور کردار کشی کی جاتی ہے وہ بہت افسوس ناک ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی اچھا کام بھی ہورہا ہوگا تو اس میں بھی تنقید کا پہلو نکال لیں گے۔
لگتا ہے لوگوں کے پاس اس کے سوا کوئی کام ہی نہیں ہے۔بس کسی بھی بات کو ہائی لائٹ کردینا اور پھر خوب مزے لینا۔اس کے لیے فن کاروں کو محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
میرے خیال میں روایتی میڈیا زیادہ صحت مند کردار ادا کررہا ہے۔یہ درست ہے کہ گزشتہ دنوں فن کار برادری میں کئی تنازعات نے جنم لیا ،خیر ایسا ہمیشہ سے ہی ہوتا آیا ہے یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی، لیکن کسی کا تضحیک آمیز انداز میں مذاق اڑانا اور عمر رسیدہ کہنا نہایت نا مناسب بات ہے،اپنا اظہار خیال اپنے پاس رکھیں، دوسروں پر مت تھونپیں۔کسی کی کمزوری کو اچھالنا اچھا نہیں ہے،افسوس ہوتا ہے کہ اپنی ہی برادری کے لوگ اچھالتے ہیں۔ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا اورسراہنا چاہیے، نئے آنے والوں کی تو ضرور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ظاہر ہے ہمارے بعد یہی لوگ ہیں، سینئرز کو اپنا دل بڑا کرنا چاہیے۔
کسی کو یہ حق نہیں کہ چیخ چیخ کر لوگوں کی کردار کشی کرے۔فردوس جمال کے ماہرہ خان کو چند جملے کہنے کے بعد تو سوشل میڈیا پر طوفان ہی آگیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اسے مزاح کے طور پر لیا اور کچھ نے سنجیدہ۔
اسی طرح یاسر کا اقراء کو اسٹائل ایوارڈ میں پرپوز کرنا معیوب نہیں تھا، لیکن اسے بھی ٹرول کیا گیا۔ اگر انہوں نے سب کے سامنے محبت کا اظہار کردیا تو اس میں کیا برائی ہے۔یعنی اگر چھپ کے غلط کام کیا جائے تو وہ صحیح، برملا کہہ دو تو غلط۔ افسوس اس پر ہوتا ہے کہ ہماری ہی فن کار برادری سے لوگ اٹھ کر سامنے آتے ہیں اور بے جا تنقید کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔میں حیران ہوتی ہوں کہ مہوش حیات کو تمغہ امتیاز ملنے کے بعد ان پر کس قدر کیچڑ اچھالا گیا۔ معاشرے سے اخلاقیات ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ یہ ہماری سوسائٹی کا ٹرینڈ بن چکا ہے ۔میں آپ کو اپنی مثال دوں۔
اداکار عمران اشرف میرے بیٹوں کی طرح ہے اس کی شادی کی تقریب میں، میں نے ا س کا ہاتھ پکڑ کر ہلکا پھلکا ڈانس کر لیا،دوسرے دن تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں اورجس طرح لوگوں نے اس پر باتیں بنائیں میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی،کہا گیا یہ تو،’’کینسر کی خوشی منا رہی ہیں‘‘، ’’کینسر کے بعد یہ عورت عمران اشرف کی شادی پر لڑکوں کے ساتھ ناچتے ہوئے‘‘ اس طرح کے جملوں سے مجھے نشانہ بنایا گیا، یہ نہیں سوچتے کہ نشانہ بننے والے کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ کس قسم کے لوگ ہیں انہیں خدا کا خوف نہیں۔
’’ڈول‘‘،’’پرنسس‘‘،’’پنکی‘‘وغیرہ عجیب عجیب نام رکھ کے سامنے آتے ہیں۔آخریہ ہیں کون لوگ ؟ کچھ دن پہلے میرے جوان بھانجے کا انتقال ہوا، جس تکلیف سے ہمارا خاندان گزر رہا ہے اللہ جانتا ہے، لیکن آپ سوچ نہیں سکتیں کہ ایسے موقعے پر بھی لوگوں نے ہمیں نہیں چھوڑا۔
ہم نے اُس کی وفات کا فیس بک پہ اسٹیٹس لگایا،ہمیں اس پر بھی گالیاں سننے کو ملیں، اندازہ لگائیں،کس کیفیت سے ہم گزرے ہوں گے۔یہ لوگ کون ہیں ہم نہیں جانتے ،نہ ہی ہم انہیں روک سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کو کسی کو تکلیف دینا پسند نہیں لیکن ایسے لوگ غافل ہیں۔ ہمیں منفی سوچ اور رویوں کو ختم کرنا ہوگا۔ کسی کے لیے اچھا سوچیں گے،اچھا بولیں گے تو خود آپ بھی خوش رہیں گے۔اگر کسی پر بے جا تنقید کریں گے تو خود بھی بے سکون رہیں گے۔میں تو یہی کہوں گی کہ بے جا تنقید سے بچیں، محبتیں پھیلائیں ،ورنہ کچھ نہیں رکھا نفرتوں میں۔
بہروز سبزواری شوبز کی دنیا کا معروف نام ،جو جس کردار میں بھی اسکرین پر آئے چھا گئے، لیکن سوشل میڈیا پر جس طرح لوگ چھارہے ہیں ،اُس سے بہروز سبزواری بھی نالاں ہیں۔ ہمارے سوال کے جواب میں بہروز کا کہنا ہے کہ کسی کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا، اللہ سب کو عزت دینے والا ہے، آج کے جدید دور میں تو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پر انتہائی فارغ لوگ بیٹھے ہیں۔انہیں بس کوئی نہ کوئی موضوع چاہیے، انہیں کوئی نہ جانتا ہے نہ پہچانتا ہے بس اپنی پہچان بنانے کے لیے دوسرے کی بے عزتی کرتے رہتے ہیں۔
آج کل اس میں کچھ زیادہ ہی تیزی آ گئی ہے، ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں۔ آپ دیکھیں فردوس جمال کی تنقید سے ماہرہ کی شہرت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ فردوس جمال کا اپنا نقطہ نظر ہے وہ اداکاری کا بڑا تجربہ رکھتے ہیں لیکن لوگوں کو مسالہ مل گیا۔ مہ وش حیات کے معاملے میں بھی لوگوں نے غلط اور بے جا تنقید کی۔ایوارڈ دینے والوں نے جو بہتر سمجھا وہ کیا۔ بہرحال ،ایوارڈ تو ملا نا اس کو،یہ تو حوصلہ افزائی کرنے والی بات ہے۔ان با توں کو متنازع بنا کر سمجھ نہیں آتا کہ لوگ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں،جبکہ فن کار برادری نے اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
معروف اداکار و ہدایت کار یاسر حسین کہتے ہیں، میں ’’فریڈم آف اسپیچ‘‘پر یقین رکھتا ہوں۔ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے ،بڑی بڑی فلم انڈسٹریز میں جہاں فن کاروں کے درمیان تنازعات جنم لیتے ہیں اور اخبارات کی شہہ سرخیوں کا حصہ بنتے ہیں۔
انہیں بھی اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ میڈیا میں رہنا ہے تو کس طرح زندہ رہنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ڈراما بنتا ہے تو اس کے تین دن شوٹ ہوتے ہیں اور وہ چھے ماہ چلتا ہے تو اس کی خبر کتنی مرتبہ لگے گی؟میں اکثر دیکھتا ہوں کہ ڈراموں پر ریویوز آتے ہیں تو انہیں اتنا نہیں پڑھا جاتا جتنا ’خبر‘ کو پڑھا جاتا ہے۔
آج چینلز سے زیادہ بلاگرز ہیں لہذا خبر تیزی سے بنتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ خبریں بنائی جاتی ہیں۔ جتنے بھی ٹاک شوز ٹی وی پر آرہے ہیں ان میں بھی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ایسی متنازع بات کہی جائے جو فوراً سوشل میڈیا پر پھیل جائے۔
ہر شخص اپنے مزاج کے مطابق سمجھتا ہے، لیکن یہ فن کاروں کے لیے بھی ضروری ہے کے وہ خبر کا حصہ بنے رہیں۔ مجھے اکثر سوشل میڈیا پر لوگ برا بھلا کہتے ہیں، تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ،لیکن مجھے برا نہیں لگتا ،یہ ایک صحت مندانہ رجحان ہے۔بس تنقید کرنے والوں سے میری ایک گزارش ہے کہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر تنقیدکریں۔ کم از کم گالم گلوچ پر ہرگز نہیں اترنا چاہیے۔
اچھے گھرانوں کا یہ شیوہ نہیں کہ اگر ایک اوپن پلیٹ فارم ملے توآپ کچھ بھی بول دیں، کسی کے لیے۔دنیا بھر میں اظہار رائے کو سراہا جاتا ہے امریکا، لندن میں تو ہائیڈ اور سینٹرل پارکس ہیں،جہاں لوگ اپنے دل کی بات برملا کہتے ہیں ،لیکن ہر چیز ایک نظم و ضبط اور تہذیب کے دائرے میں اچھی لگتی ہے۔ میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہے جو لوگ مجھے پسند کرتے ہیں وہ اکثر میرے حق میں دلائل بھی دیتے ہیں۔ صرف میں ہی نہیں سقراط کو بھی زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا، وہ بھی صحیح بات کہتا تھا ،لیکن بادشاہ نے کہا کہ زہر کا پیالہ پیو، اس نے زہر کا پیالہ پی لیا۔میں بھی اس دور کا ’’سقراط‘‘ہوں۔
ماڈل و اداکارہ نادیہ حسین کا کہنا تھا کہ،میرے نزدیک تنازعات کوئی معنی نہیں رکھتے۔لیکن اگر ہم عوام یا مداحوں کی بات کریں تو ان کا اپنا اظہار خیال ہوتا ہے وہ چاہے اس کے لیے سوشل میڈیا استعمال کریں یا کوئی اور میڈیم، لیکن بلا سوچے سمجھے تنقید کرنا صحیح نہیں۔
درحقیقت سوشل میڈیا ہر ایک کے لیے battle ground بن گیا ہے۔اس میں کون کیا کرسکتا ہے یا کوئی کس مقام پر کھڑا ہے ،اس سے تنقید کرنے والے کو کوئی فرق نہیں پڑتا، بس کسی کو بھی حدف تنقید بنا لینا ضروری سمجھ لیا جاتا ہے۔ چاہے وہ کوئی آرٹسٹ ہو یاعام شخص، اسے تنقید ضرور کرنی ہے۔میں تو اب تک کی صورت حال سے یہی سمجھ سکی ہوں کہ جو لوگ تنقید کررہے ہوتے ہیں وہ بھی وہ ہی کام خود بھی کرنا چاہیں گے،مثلاً یاسر حسین کا اقراء کو پرپوز کرنا، انگوٹھی پہنانا، انہیں بھی کوئی اتنی خوب صورتی سے یاسر حسین کی طرح پروپوز کرے یا سرعام اپنی محبت کا اظہار کرے، لیکن جب دوسروں کو دیکھتے ہیں تو تنقید کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔