پاکستان کی فلمی موسیقی کا دور 50ء سے 90ء تک سپرہٹ گانوں پر مبنی رہا۔ ان چالیس برس کے عرصے میں فلمی موسیقی میں بڑے بڑے نام آئے، جنہوں نے فن موسیقی میں عزت و شہرت اور مقام پایا ۔ ایسے موسیقاروں کی ایک طویل فہرست ہے ۔ یہ تمام لوگ آج بھی اپنے سدابہار گیتوں کی بنا پر عوام الناس میں مقبول ہیں۔ اس فہرست میں ہمیں ایک خاتون موسیقار شمیم نازلی کا نام بھی ملتا ہے، جو فلمی موسیقی سے وابستہ پہلی اور اب تک کی آخری مستند موسیقار مانی جاتی ہیں۔
شمیم نازلی اور نسیم نازلی دو بہنیں تھیں۔ واضح رہے نسیم نازلی نے مالا کے نام سے گائیکی کی دُنیا میں قدم رکھا اور بہت عروج پایا۔ مالا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ شمیم نازلی اسی معروف گلوکارہ مالا بیگم کی بڑی بہن تھیں، جو 1940ء میں بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئیں۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ان کا گھرانہ فیصل آباد آکر آباد ہوگیا۔ دونوں بہنوں کا رجحان فن موسیقی سے رہا، جو انہیں فیصل آباد سے لاہور لایا۔ نسیم نازلی نے 1962ء میں ماسٹر عبداللہ کی موسیقی میں فلم ’’سورج مکھی‘‘ کے لیے چند گیت ریکارڈ کروائے، جس کی مقبولیت نے انہیں شہرت بخشی۔
انور کمال پاشا اس فلم کے ہدایت کار تھے، جنہوں نے نسیم نازلی کانام مالا رکھ دیا اور پھر وہ اسی نام سے مقبول ہوئیں۔ بڑی بہن شمیم نازلی نے پہلی بار فلم ’’بہاریں پھر بھی آئیں گی‘‘ کے نغمات کی موسیقی دے کر پاکستان کی پہلی خاتون موسیقار کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ فلم 1969ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کی فلم ساز ان کی چھوٹی بہن مالا بیگم تھیں اور ایس سلیمان ہدایت کار تھے۔ فلم کے مرکزی کردار محمد علی اور زیبا نے ادا کیے، جب کہ روزینہ کا کردار بھی اہم تھا۔
ان ہی پر فلمایا ہوا ایک گیت ’’پیار کے نغمے کس نے چھیڑے میں تو کھو گئی‘‘ بے حد مقبول ہوا اور آج بھی دل چسپی سے سُنا جاتا ہے۔ اس فلم کے باقی تمام نغمات بھی اپنےدور میں بے حد مشہور ہوئے۔ ایک کام یاب اور سپرہٹ گانے تخلیق کرنے والی اس خاتون موسیقار کے کریڈٹ پر صرف گنتی کی چند فلمیں ہیں۔ فلمی صنعت میں موسیقار کی بڑی تعداد نے اس خاتون کو کوئی زیادہ کام نہ کرنے دیا۔
بعض موسیقار اپنی گروپ بندی اور لابیز کے تحت بھی کام حاصل کرتے رہے، ایک کمزور عورت بھلا کہاں ان کا مقابلہ کرسکتی تھیں۔ ’’بہاریں پھر بھی آئیں گی‘‘ کی کام یابی کے باوجود شمیم نازلی کو کسی فلم ساز نے اپنی فلم کے میوزک کے لیے نہ کہا۔ 1971ء میں ان کی بہن مالا بیگم نے اپنی دوسری فلم ’’نائٹ کلب‘‘ بنائی تو اس کے ٹائٹل پر ایک بار پھر بہ طور موسیقار شمیم نازلی کا نام آیا۔ کمال اور شمیم آرا اس فلم کے ہیرو ہیروئن تھیں۔ فلم کے نغمات بے حد دل کش اور سُریلے تھے، لیکن فلم کے فلاپ ہونے کی وجہ سےوہ نغمات کوئی خاص مقبولیت حاصل نہ کرپائے۔ یہ ایک جاسوسی فلم تھی، جس کے ہدایت کار اقبال یوسف تھے۔ 1975ء میں فلم ساز، ہدایت کارہ اور اداکارہ زینت بیگم نے اپنی معاشرتی سپر ہٹ قلم ’’بن بادل برسات‘‘ کی موسیقی کے لیے شمیم نازلی کو موقع دیا۔
اس فلم کے تمام نغمات اس قدر سپر ہٹ ہوئے کہ ہر طرف اس خاتون موسیقار کانام ہوگیا، لیکن اس شہرت کے باوجود انہیں کسی فلم ساز نے کوئی فلم نہ دی اور شمیم نازلی ایک بار پھر گھر بیٹھ گئیں۔ اسی سال اداکارہ، ہدایت کارہ اور فلم ساز شمیم آرا نے اپنی ذاتی فلم ’’میرا پیار یاد رکھنا‘‘ شروع کی ، جس کے لیے شمیم نازلی سے رابطہ کیا ۔ انہوں نے اس فلم کا میوزک ترتیب دیا۔ فلم کے نغمات کے ریکارڈ بھی ریلیز ہوئے اور بے حد مقبول ہوئے، مگر یہ فلم ریلیز نہ ہوسکی۔ بہ طور موسیقار یہ ان کی آخری فلم تھی ۔ شمیم نازلی کی ایک بیٹی عاشی نے ممتاز کہانی نویس علی سفیان آفاقی کی ایک ان ریلیز فلم ارمان میں اداکاری بھی کی تھی۔