پشاور (جنگ نیوز) ایک صحافی جو چار سال قبل ایک خودکش حملے کی نذر ہونے سے بچ گیا تھا، وہ اپنے علاج معالجے کے لئے اب بھی دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پررہا ہے جبکہ اسکول جانے والے اپنے چار بچوں، بیمار والدہ، بیوی اور بہن کی کفالت کا بھی وہی ذمہ دار ہے۔ یوسف خان 19؍ اپریل 2016ء کو مردان میں ایک خودکش حملے میں شدید زخمی ہوا۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے مرکزی گیٹ پر اس نے خودکش حملہ آور پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی بیلٹ میں چھپے دھماکہ خیز مواد سے منسلک بٹن دبانے میں کامیاب ہوگیا۔ یوسف خان کو پہلے لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور لایا گیا اور بعد ازاں شفا انٹرنیشنل اسپتال اسلام آباد منتقل کردیا گیا تاہم اس کے مصائب اور مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ بہتر تھا کہ وہ موقع پر ہی جان کی بازی ہار جاتا۔ یوسف خان کا کہنا ہے اس کی سانس تو چل رہی ہے لیکن بایاں جبڑا، آنکھ، کان، ناک اور آدھا جسم کام نہیں کررہے۔ گولیاں اور دھماکہ خیز مواد اب بھی ان کے جسم میں موجود ہے۔ ڈاکٹروں نے بیرون ملک علاج تجویز کیا لیکن زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ دوسروں کی طرح اسے بھی امداد میں دو لاکھ روپے ملے لیکن علاج کے لئے گھر میں جو کچھ تھا وہ بیچنا پڑگیا۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک، صوبائی وزراء عاطف خان اور شاہرام ترہ کئی بارہا امداد کی یقین دہانی کرائی لیکن عملاً کچھ نہ ہوا۔