وزیراعظم عمران خان نے خبردار کیا کہ اگر عالمی برادری نے مداخلت نہیں کی تو دو جوہری ملک آمنے سامنے ہوں گے، اس صورتحال میں اقوام متحدہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اگر پاکستان اور بھارت میں روایتی جنگ ہوتی ہے تو کچھ بھی ہوسکتاہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے 4 اہم نکات پر اظہار خیال کیا۔
انہوں نے کہاکہ اگر روایتی جنگ ہوئی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے، پاکستان کے پاس خود سے 7 گنا بڑے ملک کے خلاف آخر تک لڑنے کے سوا کوئی چوائس نہیں ہوگی اور ایٹم بم چلا تو نتائج سرحدوں سے پار تک جائیں گے۔
عمران خان نے واضح تو پر کہا کہ میں دنیا کو ڈرانے نہیں آیا ،بلکہ سنجیدہ توجہ دلارہا ہوں کہ اس معاملے کی حساسیت کو سمجھا جائے،اس صورتحال میں ذمہ داری اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے،یہی کہنے کےلئے یہاں آیا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے سلامتی کونسل کی 11 قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، مقبوضہ وادی میں اضافی فوجی نفری تعینات کی اور کرفیو لگاکر 80 لاکھ لوگوں کو گھروں میں محصور کردیا۔
وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم سے متعلق کہا کہ مودی آر ایس ایس کے رکن ہیں جو ہٹلر اور مسولینی کی پیروکار تنظیم ہے، آر ایس ایس کے نفرت انگیز نظریے کی وجہ سے گاندھی کا قتل ہوا، آر ایس ایس بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کررہی ہے اور یہ ہٹلر سے متاثر ہو کر بنی، آر ایس ایس بھارت سے مسلمانوں اور عیسائیوں سے نسل پرستی کی بنیاد پر قائم ہوئی، اسی نظریے کے تحت مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم بے نقاب کرتے ہوئے کہاکہ تقریبا ً 2 ماہ سے کرفیو نافذ ہے،جس کے اٹھتے ہی بھارت خونریزی کرے گا۔
انہوں نے کہاکہ جس طرح آج 80 لاکھ کشمیری مسلمان محصور ہیں ،اس طرح صرف 8 لاکھ یہودی قید ہوتے تو کیا اقوام عالم یوں ہی خاموش رہتا ؟کیا مسلمان دیگر اقوام سے کمتر ہیں؟
عمران خان نے کہاکہ بھارتی ظلم و تشدد سے انتہا پسندی میں اضافہ ہورہا ہے،اس نے لوگوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کردیا ہے،پلوامہ حملے میں ملوث کشمیری نوجوان بھی بھارتی تشدد کا شکار بنا تھا۔
ان کا کہنا تھاکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے اقوام متحدہ کی 11 قراردادوں کی خلاف ورزی کی، گزشتہ 30سالوں میں 1لاکھ کشمیریوں نے جان کی قربانی دی، مودی کی انا اور تکبر نے اسے اندھا کردیا ہے،افسوس ہے کہ دنیا انسانیت کے بجائے اپنا کاروباری مفاد دیکھ رہی ہے۔
اسلام فوبیا
وزیراعظم عمران خان نے اسلامو فوبیاں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ نائن الیون کے بعد سے اسلامو فوبیا میں خطر ناک حد تک اضافہ ہوا ہے،بعض ملکوں میں مسلم خواتین کا حجاب پہننا مشکل بنادیا گیا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ بنیاد پرست اسلام یادہشت گرد اسلام کچھ نہیں ہوتا ،اسلام صرف ایک ہے جو حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے،مغرب کو سمجھناہوگا کہ مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت کرتے ہیں،مغرب میں کچھ لوگ جان بوجھ کر مسلمانوں کو تکلیف دینے کے نفرت انگیز بات کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے مزید کہاکہ کوئی مذہب بنیاد پرستی نہیں سکھاتا،افسوس کی بات ہے بعض سربراہان اسلامی دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں،افسوس کی بات ہے مسلم ملکوں کے سربراہوں نے اس بارے میں توجہ نہیں دی۔
منی لانڈرنگ
عمران خان نے منی لانڈرنگ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ غریب ملکوں کو وہاں کا اشرافیہ طبقہ لوٹ رہا ہے، ہر سال اربوں ڈالر غریب ملکوں سے ترقی یافتہ ملکوں میں چلے جاتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہاکہ امیر افراد اربوں ڈالر غیر قانونی طریقے سے یورپ کے بینکوں میں منتقل کردیتے ہیں، ہمارے ملک کا قرضہ 10 برس میں 4 گنا بڑھا ہے،اس کے نتیجے میں ٹیکس کی آدھی رقم قرضوں کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھاکہ ہم نے مغربی دارالحکومتوں میں کرپشن سے لی گئی جائیدادوں کا پتا چلایا، امیر ممالک میں ایسے قانون ہیں جوکرمنلز کو تحفظ فراہم کرتے ہیں،جس کی وجہ سے غریبوں کی زندگی بدلنے پر دولت خرچ نہیں ہوتی ،ہمیں مغربی ملکوں میں بھیجی گئی رقم واپس لینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ کرپٹ حکمرانوں کو لوٹی گئی رقم بیرون ممالک بینکوں میں رکھنے سے روکاجائے۔
ماحولیاتی تبدیلی
پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ 10 ممالک میں شامل ہیں، گرین ہائوس گیسز میں پاکستان حصہ انتہائی کم ہے ،اس حوالے سے بہت سے لیڈر سنجیدہ نہیں ، اس کے باوجود ہم نے خبیرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگائے ۔
انہوں نے مزید کہاکہ پاکستان میں 80 فیصد پانی گلیشیئرز سے آتا ہے ،گلیشیئرز پگھلتے رہے اور کچھ نہ کیا گیا تو بہت بڑی تباہی آئے گی ، صرف ایک ملک کچھ نہیں کرسکتا ،سب ملکوں کو ذمے داری ادا کرنا ہوگی ۔
وزیراعظم نے کہاکہ اقوام متحدہ کی جنرل سے خطاب میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بہت سے ممالک کے سربراہان نے بات کی ،ان میں سے کچھ سنجیدہ نہیں دکھائی دے رہے ۔