ندیم اشفاق
ٹیلی ویژن ڈراموں کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی، محمد قوی خان کے نام اور کام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا۔انہوں نے شوبزنس کی دُنیا میں ایک طویل اننگ کھیلی ہے۔ آج وہ اسٹیج، ریڈیو، ٹیلی ویژن ڈراموں اور فلموں کا ایک مضبوط حوالہ ہیں۔
محمد قوی خان نئے آنے والے فن کاروں کے لیے اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ ایسے منجھے ہوئے فن کار ہیں، جنہوں نے شو بزنس کی مختلف اصناف میں اپنے فن کا لوہا منوایا اور بھرپور کام یابی حاصل کی۔ وہ فن سے وابستگی کے حوالے سے معمر ترین فن کار کا اعزاز بھی رکھتے ہیں، جو گزشتہ60 برس سے فن کی آب یاری میں مسلسل مصروفِ عمل ہیں۔ 1964ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے ڈرامے ’’نذرانہ‘‘ میں قوی خان نے مرکزی کردارادا کیا تھا اور اب تک وہ فن کی دُنیا سے پوری توانائی کےساتھ وابستہ ہیں۔
’’نذرانہ‘‘ 28؍ نومبر 1964ء کو براہ راست ٹیلی کاسٹ ہوا، نجمہ فاروقی کے لکھے گئے، اس ڈرامے کو فضل کمال نے پروڈیوس کیا تھا۔ محمد قوی خان کو اداکاری کا شوق بچپن سے ہی تھا، مایہ ناز فن کار نے زمانہ طالب علمی میں اسکول اور کالج میں ہونے والے ڈراموں میں حصہ لینا شروع کیا، بعد ازاں وہ ریڈیو پاکستان پشاور کے بچوں کے پروگراموں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگے، اسی دوران انہوں نے ریڈیو پاکستان پشاور کے ڈراموں میں چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے حصہ لینا شروع کردیا اور یُوں اداکاری کا یہ شوقیہ سفر پختگی کی جانب رواں دواں ہوگیا۔
رفتہ رفتہ وہ ریڈیو پر ہر قسم کے کردار ادا کرنے لگے۔ کچھ عرصے بعد وہ اپنے خاندان سمیت لاہور منتقل ہوگئے۔ اس دوران پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو قوی خان کو ٹی وی کے پہلے ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے کا موقع ملا ۔وہ ٹی وی سے 55؍ سال سے وابستہ ہیں۔
محمد قوی خان 13؍ نومبر 1932ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ 1968ء میں ان کی شادی ناہید بیگم سے ہوئی۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، تمام بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ قوی خان کے دونوں صاحب زادے عدنان قوی اور مہران قوی بھی گزشتہ 30؍ سال سے ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں حصہ لے رہے ہیں۔
ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے بعد قوی خان فلم اور اسٹیج ڈراموں میں باقاعدگی سے کام کرتے رہے، انہوں نے 200؍ سے زائد فلموں میں اپنی بے ساختہ اداکاری کے جوہر دکھائے، جب کہ 13؍ سے زائد اردو اور پنجابی فلموں کے فلم ساز بھی رہے، وہ بہ طور ہدایت کار ایک فلم کی ڈائریکشن بھی دے چکے ہیں۔ انہوں نے لاہور، کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں اسٹیج ڈراموں میں حصہ لیا۔ تاہم ٹیلی ویژن ڈرامے آج بھی ان کی شناخت ہیں۔
محمد قوی خان ہر دور میں مقبول ترین فن کار رہے ہیں۔ بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے تک کے فنی سفر میں انہوں نے لاتعداد ڈراموں، فلموں اور ریڈیو پروگرامز میں حصہ لیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، بچہ، جوان اور بزرگ، ہر قسم کے کردار ادا کیے۔ ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان سمیت مختلف اداروں کی جانب سے کئی ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا۔
2012ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے بہترین اداکاری پر ستارہ امتیاز، جب کہ 1980ء میں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ دیا گیا۔علاوہ ازیں 2007ء میں پی ٹی وی کے لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ،جب کہ 1969ء میں فلم ’’بہورانی‘‘ 1976ء میں فلم ’’آج اور کل‘‘ اور 1978ء میں فلم ’’پرکھ ‘‘ میں بہترین معاون اداکار کے نگار ایوارڈز حاصل کیے۔ پاکستان کے وہ واحد اداکار ہیں، جن کو سب سے پہلے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی کا حق دار قرار دیا گیا۔ ریڈیو پرعمدہ کارکردگی کے حوالے سے انہیں لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
قوی خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے ٹیلی ویژن کے سب سے زیادہ ڈراموں میں حصہ لیا۔ ان کے ڈراموں کی فہرست خاصی طویل ہے، جن کی تفصیل کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے۔ تاہم ان کے مقبول ڈراموں میں لاکھوں میں تین 1965ء، اندھیرا اجالا 1984ء، دہلیز 1984ء، فِشار 1981ء، لمبے ہاتھ اور دن 1992ء پشاور کی مقبول ڈراما سیریل نورینہ، 1993ء پہلی پرائیویٹ پروڈکشن مرزا غالب اِن امریکا، 1994ء شامل ہیں،جب کہ 1995ء قوی کا مصروف ترین سال رہا ،جس میں ان کی 6؍ ڈراما سیریلز علی بابا، انگار وادی، ریزہ ریزہ، کرب، شاخسار اور بیرونِ ملک بننے والی پہلی سیریل اڑان شامل ہے۔
اس کے علاوہ غبار 1996ء، سلسلہ 1997ء، چھوٹے 1998ء، خواب اور عذاب، پیاسی اور سیریل جنون 1999ء، قفس، دوپٹہ، اور تلاش2000ء، پروڈیوسر محمد نفیس کا ساون، سفر اور آشیانہ2001ء، بادلوں پہ بسیرا2002ء، مٹھی بھر مٹی 2008ء، من جانے، مشال اور بیٹیاں 2009ء، داستان اور لاہوری کیک 2010ء، میرا قاتل میرا دلدار، پھر چاند پر دستک، زندگی دھوپ تم گھنا سایہ، جو چلے تو جاں سے گزر گئے 2011ء، درویش، ایک نئی سنڈریلا، میری بہن میری دیورانی 2012ء، کلموہی 2013ء، قدم دروازہ، صدقے تمہارے، میاں کوکو اور وہ 2014ء، عشقاں وے، بوجھ 2015ء، تم کون پیا، حیا کے دامن میں، یہ عشق، نیویارک سے نیو کراچی، سہیلیاں، سیتا باگڑی، 2016ء، نظربد، الف لیلی اور انس، خانی، آنگن، پارچہ، منکر 2017ء، ببن خالہ کی بیٹیاں، مجھے رنگ دے، دِل موم کا دیا، درشہوار، دو قدم دور تھے، استانی جی سمیت لاتعداد ڈراما سیریلز میں انہوں نے مختلف النوع کے نا قابلِ فراموش کردار ادا کیے۔
قوی خان نے اپنے فنی کیریئر میں کئی لانگ پلے، ڈراما سیریز اور خصوصی نوعیت کے کھیلوں میں بھی حصہ لیا۔ ان میں چند ایک یہ ہیں۔ مرزا اینڈ سنز، کار جہاں دراز ہے، بھوک، چورنگی، اپنے اپنے محاذ پر، تلاش، ان سے ملیے، تکمیل، بے نیند راتوں کے خواب، ایک سنہرا موقع، ہم زندہ قوم ہیں، آخری کردار، انتخاب، بازگشت، ایک محبت ایک کہانی، اپنا اسمان، بہن بھائی، تسلسل، پہلی سی محبت، دوسرا ویزہ، جذبہ ایک سمندر ہے، نشان ہمارا ہے، نصیب، ہنستے ہنساتے، عید ہو تو ایسی وغیرہ سرفہرست ہیں۔
قوی خان کا سفر ٹی وی اسکرین تک محدود نہیں رہا۔ انہوں نے 200؍ سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ بیش تر فلموں میں انہوں نے سپورٹنگ کریکٹر ادا کیے۔
اداکاری کے ساتھ قوی خان نے ایک درجن سے زائد فلمیں بھی پروڈیوس کیں۔ تاہم فلم سازی کے شعبے میں وہ زیادہ کام یابی حاصل نہیں کر سکے، جب کہ 1975ء میں فلم روشنی کی ڈائریکشن کے فرائض بھی ادا کیے۔
قوی خان نے 1965ء میں دلجیت مرزا کی فلم ’’رواج‘‘ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے فلم مسٹر بدھو، بے ایمان، نیلام، روشنی، جوانی دیوانی، چوری چوری، منجھی کتھے ڈانواں، ماں بنی دُلہن سمیت دیگر فلمیں بہ طور فلم ساز پیش کیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے فلم سچائی، آج اور کل، پرکھ، صائمہ، آنسو، دبئی چلو، آس، تیرا غم رہے سلامت، گورا کالا، شرافت، تیرے میرے سپنے، پہچان، بیگم جان، کالو، سیتا مریم مارگریٹ، ناگ منی، خلش، چاہت، سماج، میں چپ رہوں گی، عشق عشق، احساس، ٹائیگر گینگ، چن سورج، سوسائٹی گرل، محبت زندگی ہے، سرفروش، کالے چور، زمین آسمان، انٹرنیشنل لٹیرے، رانگ نمبر، مہرالنساء وی لب یو، پری، نہ بینڈ نہ باراتی، شیرماما نامی فلموں میں بھی کردار نگاری کی۔
ان کا بچپن کئی حسین یادوں سے سجا ہوا ہے۔ انہیں نہر میں نہانے کا بہت شوق تھا، اس شوق کی وجہ سے ایک دن وہ موت کے بہت قریب سے گزرے۔ اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب میری عمر اس وقت سات آٹھ برس رہی ہوگی، جب مجھے موت کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
پشاور میں ایک روز میں نہر میں نہاتے ہوئے ڈوبتے ڈوبتے بچا۔ پانی کا بہائو مجھے پل کے نیچے لے جانے کو تھا، جہاں پہنچ جاتا تو بچنے کی جو تھوڑی بہت اُمید تھی وہ بھی جاتی رہتی۔
گھبراہٹ کے عالم میں بہت ہاتھ پیر مارے، لیکن سب بے سود رہے۔ ایسے میں میرے بڑے بھائی، جو نہر میں میرے ساتھ ہی نہا رہے تھے ، ان کی اچانک مجھ پر نظر پڑ گئی اور انہیں میری حالت کا اندازہ ہوگیا۔ وہ اچھی طرح تیرنا جانتے تھے، لہزا، بڑی تگ ودو کے بعد وہ مجھے کنارے پر لے آئے۔میں اس وقت شدید گھبراہٹ اور خوف میں مبتلا تھا۔
چھوٹی سی عمر میں موت کا سامنا کرنے کا یہ تجربہ بہت خوف ناک اور دل دہلا دینے والا تھا۔ اس واقعے نے مجھ پر ایسا لرزہ طاری کیا کہ میں بعد میں ساری زندگی نہر میں نہانے کے خیال سے باز ہی رہا۔
قوی خان کے بڑے بھائی اچھے ڈراما نویس تھے اور ریڈیو پاکستان پشاور کے لیے لکھا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ ایڈورڈز کالج میں انگریزی کے پروفیسر بھی تھے، جب انہیں گورنمنٹ کالج لاہور میں جاب ملی تو سارا خاندان لاہور منتقل ہو گیا۔ قوی خان کو پشاور میں قیام کے دوران احساس تھا کہ فلمی دنیا میں کام کرنے کے لیے ایک نہ ایک دن انہیں پشاور چھوڑنا ہی ہوگا۔ چناں چہ ایک لحاظ سے یہ فیصلہ ان کے لیے بہت سود مند ثابت ہوا۔
قوی خان کا کہنا ہے کہ شاید میں واحد اداکار ہوں، جو پچھلے 60 برسوں سے شوبز میں کام کر رہا ہوں، میں نے ہمیشہ اپنا کام ایمان داری سے کیا ہے۔ میرے نزدیک محبت ایک فضول چیز ہے، میں نے زندگی میں لاتعداد عشق کیے، مگر وہ سب یک طرفہ تھے۔
ڈراموں اور فلموں کی شوٹنگز کے سلسلے میں کراچی میں قیام پزیر ہوں، جب کہ میری اہلیہ لاہور میں رہتی ہیں، لیکن میں روزانہ فون کر کے ان کے ساتھ نوک جھونک ضرور کرتا ہوں اور اس کو بڑا انجوائے کرتا ہوں۔
اداکار قوی خان لیجنڈ اور عہد ساز فن کار ہیں۔ گزشتہ 6؍ عشروں میں ٹی وی، ریڈیو، فلم، اسٹیج کے صداکار اور اداکاری کے علاوہ بطور فلم ساز اور ہدایت کار کی حیثیت سے ان کی کارکردگی شائقین کے سامنے آئی اور اپنے ہر روپ میں وہ کام یاب اور نمایاں رہے ہیں۔
قوی موجودہ دور میں بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ ڈراموں کے علاوہ ان کی کئی فلمیں زیر تکیمل ہیں، جو عنقریب ریلیز ہوں گی۔ ایسے فن کار ملک و قوم کا اثاثہ ہیں، رب کائنات انہیں طویل عمر عطا فرمائے۔