برِصغیر پاک و ہند کی فلمی موسیقی میں ایک زمانے میں یہ رواج عام تھا کہ دو موسیقار مل کردُھنیں بناتے تھے۔ موسیقاروں کی یہ جوڑیاں کام یاب و مقبول بھی ہوئیں اور ان کے تخلیق کیے ہوئے گیتوں نے طویل عرصے تک سماعتوں میں رس بھی گھولا، جیسے بھارت میں شنکرجے کرشن، لکشمی کانت پیارے لال، کلیان جی آنند جی کی موسیقار جوڑیوں نے بے حد نام کمایا۔ پاکستان کی فلمی موسیقی میں جو چند جوڑیاں مقبول ہوئیں ،ان میں غلام نبی عبداللطیف، سلیم اقبال، بخشی وزیر، منظور اشرف، وزیر افضل اور لال محمد اقبال کے نام شامل ہیں۔
آج ہم موسیقار جوڑی لال محمد اقبال کے فن موسیقی کے متعلق بات کریں گے۔ لال محمد 1923ء میں اودے پور راجستھان میں پیدا ہوئے۔ بعد ازاں وہ 51ء میں پاکستان آگئے۔ وہ بانسری بجانے کے ماہر بھی تھے۔ معروف براڈ کاسٹر ریڈیو پاکستان سجاد سرور نیازی نے ایک روز لال محمد کو کراچی کے ساحل سمندر پر بانسری بجاتے دیکھا اور سُنا تو انہیں ریڈیو کراچی میں ملازمت کے لیے پیش کش کیا، چناں چہ لال محمد 12؍ روپے ماہوار پر ریڈیو پر ملازم ہوگئے۔ یہاں ان کی ملاقات استاد بندو خان کے صاحب زادے بلند اقبال سے ہوئی۔ ان دونوں کی جوڑی کا آغاز یہاں سے ہوا۔ دونوں موسیقاروں نے مل کر ایک گیت کی دُھن مرتب کی، جسے ثریا حیدرآبادی کی آواز میں ریکارڈ کروایا گیا، اس گیت کے بول یہ تھے، ’’مورا دھڑکن لاگا جی‘‘۔
بلند اقبال 1921ء میں پیدا ہوئے۔ وہ بھی ریڈیو سے منسلک رہے۔ 1961ء میں نمائش کے لیے پیش ہونے والی اردو فلم ’’بارہ بجے‘‘ کی موسیقی اس موسیقار جوڑی نے ترتیب دی۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کراچی سے کیا۔ ان کی دُھن میں ترتیب دیا ہوا پہلا فلمی نغمہ ’’ہار گئی ہارگئی تو سے دل لگا کر‘‘ جسے بھارتی گلوکارہ نشی کماری (اصل نام نازش خان تھا) نے گایا ،یہ سدا بہار گیت آج بھی دل چسپی سے سُنا جاتا ہے۔اس موسیقار جوڑی نے زیادہ تر کراچی میں بننے و الی فلموں کی موسیقی دی۔ انہیں پانچ مختلف زبانوں میں موسیقی دینے کا اعزاز حاصل ہے۔
کراچی میں بننے والی پہلی گجراتی زبان کی فلم ’’ماں تے ماں‘‘ کے علاوہ پہلی پشتو فلم ’’یوسف خان شیر بانو‘‘ کی موسیقی مرتب کرنے کا اعزاز بھی اسی جوڑی کو حاصل ہوا، جب کہ سندھی زبان میں بننے والی حاکم خان، میران جمالی، ہمت اور نفرت، ان ہی کے کریڈٹ پر ہیں۔ دو بنگالی فلمیں مورنی کھی اور امار بانو روپ بان کے موسیقار بھی لال محمد اقبال ہیں۔
اس مقبول موسیقار جوڑی نے 35؍ فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ 1966ء میں ہدایت کار شیخ حسن کی نغماتی سپر ہٹ فلم ’’جاگ اٹھا انسان‘‘ کے نغمات بے حد مقبول ہوئے۔ مہدی حسن کا گایا ہوا گیت ’’دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں‘‘ کی مقبولیت آج بھی قائم ہے۔ اس فلم کی موسیقی میں پہلی بار انہوں نے راجستھان کے لوک رقص راسڑا کو اپنی دُھن میں ترتیب دیا، یہ رقص ڈانڈیاں کہلاتا ہے، جس کے بول یہ تھے! ’’گوری ذرا پھر سے بجابانسریا پیپل کی چھائوں میں‘‘ جو بے حد مقبول ہوا۔ فلمی گیتوں کے ساتھ ساتھ یہ دونوں موسیقار ریڈیو کراچی پر بھی گیت مرتب کرتے رہے۔ نورجہاں، مہدی حسن، احمد رشدی، رونا لیلی، مالا بیگم، مسعود رانا، نگہت سیما، وسیم فاروقی، ناہید نیازی، مدھوالماس کے علاوہ انہوں نے بھارتی گلوکار طلعت محمود، مبارک بیگم، سی ایچ آتما کی آوازیں اپنے غیر فلمی نغمات میں شامل کیں۔
1994ء میں اس موسیقار جوڑی کی آخری فلم ’’سب کے باپ‘‘ ریلیز ہوئی، جس کے ہدایت کار جان محمد تھے۔ آج موسیقی کی دنیا کے یہ دونوں فن کار اپنے مالک حقیق سے جاملے ہیں، لیکن ان کے بے شمار مدھر اور سُریلے نغمات، موسیقی کے دیوانے سنتے رہیں گے اور گاتے رہیں گے۔