بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں ہفتے کے روز ہونے والے بم دھماکے میں مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا محمد حنیف سمیت تین افراد کے جاں بحق اور 17زخمی ہو جانے کا واقعہ انتہائی المناک اور قابلِ مذمت ہے۔ صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان نے اس سانحے پر بجا طور پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات خاص طور پر تشویش انگیز ہے کہ بلوچستان میں اس ماہ کے دوران ہونے والا تیسرا بم دھماکا ہے۔ قبل ازیں 5ستمبر کو کوئٹہ شہر میں نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے کوچ اڈے میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکوں میں ایک رضا کار جاں بحق جبکہ پولیس انسپکٹروں، دو صحافیوں اور ایک بچے سمیت 14افراد زخمی ہوئے تھے۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنمائوں کو نشانہ بنانے کا یہ چند برسوں میں تیسرا واقعہ ہے۔ گزشتہ روز چمن میں ہونے والا دھماکا موٹر سائیکل میں نصب آئی ای ڈی کے ذریعے کیا گیا جس کا نشانہ مولانا محمد حنیف تھے جنہیں تشویشناک حالت میں سول اسپتال چمن منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس ضمن میں یہ کہنا پڑتا ہے کہ صوبائی دارالحکومت سمیت بلوچستان میں آئے دن رونما ہونے والے اس قسم کے واقعات ریاستی اداروں کے لئے بدستور چیلنج بنے ہوئے ہیں اور صوبے کا امن متاثر ہو رہا ہے۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں لہٰذا ملک کی سیکورٹی ایجنسیوں کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ جس مقام پر یہ وقوعہ رونما ہوا وہ افغان سرحد سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ایسے حساس مقامات پر پاکستانی شہریوں کی حفاظت میں ناکامی مقامی پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ واقعے کی بلاتاخیر تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو قانون کی گرفت میں لایا جانا چاہئے تاکہ ایسے واقعات کے اعادے کے خدشات کا سدباب کیا جا سکے۔