• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی آزاد کشمیر کے شہری 8اکتوبر 2005ء کے زلزلے کی مظفرآباد، باغ، راولا کوٹ، میرپور، ہزارہ ڈویژن میں تباہ کاری اور 76ہزار شہداء کی یادیں دِل و دماغ سے محو نہیں کر پائے تھے کہ گزشتہ ماہ کی 24 تاریخ کو سہ پہر چار بج کر دو منٹ پر آنے والے زلزلے نے ایک بار پھر علاقے میں تباہی مچا دی۔ 5.8کی شدّت سے آنے والے زلزلے کا مرکز میرپور شہر سے چند کلومیٹر دُور’’ کھڑی شریف‘‘ میں 10کلومیٹر زیرِ زمین تھا۔ اِس سانحے نے 2005ءکے زلزلے کے زخم پھر سے ہرے کردیئے ہیں۔ 

چند سیکنڈ کے دورانیے پر مشتمل اِس قیامتِ صغریٰ کے دَوران 40انسانی زندگیاں لقمۂ اجل بن گئیں، جن میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچّوں کی تھی۔ جب کہ سرکاری ذرائع کے مطابق 723افراد زخمی ہوئے۔تاہم، میرپور اور نواحی علاقوں کے نجی اسپتالوں میں داخل زخمیوں کو ملا کر یہ تعداد ساڑھے نو سو سے تجاوز کر گئی۔ آزاد کشمیر کا مِنی لندن،’’ میرپور‘‘ چند سیکنڈز میں کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا۔ 

آفٹر شاکس اور زلزلے کے خوف سے بیش تر افراد نے رات کُھلے آسمان تلے سڑکوں اور فُٹ پاتھوں پر گزاری۔زلزلے سے برطانیہ میں مقیم ایک ملین میرپوریوں کا ’’منی لندن‘‘ اجڑ گیا۔ عالی شان بنگلوں اور آسمان کو چُھوتے پلازوں کی بنیادیں ہل گئیں۔ اس شہر کی تعمیر و ترقّی اور خوش حالی میں کسی حکومت کا کوئی کمال نہیں، بلکہ یہ سب تارکینِ وطن کا مرہونِ منّت ہے۔ شہر کے مختلف سیکٹرز ، منشی ڈھوک بہادر، چترپڑی، بڑیں، کھاڑک، نکہ، بن خرماں، ڈی ون، ڈی تھری، ڈی فور ایسٹ، ڈی فور فٹ بال چوک کا جنوبی ایریا، کچّی آبادی ایف ٹو، ایف تِھری اور دیگر کئی علاقوں کی ہزاروں عمارتیں ناقابلِ رہائش ہو گئیں۔ 

اسی طرح میرپور کی دیہی آبادی، بالخصوص کھڑی شریف کے دیہات چیچیاں، سموال شریف، پنڈی سبھروال، پلمنڈا، افضل پور، رنگ پور، چھابڑیاں، ساہنگ، جاتلاں، سیم، بٹلیاں، عبدوپور، بنی، دتیال، خالق آباد، جنیال، نواں گراں، سکھ چین پور، بنگ، اعوان ریتل اور دیگر علاقوں میں بھی شدید نقصان ہوا۔ سرکاری اور فلاحی اداروں کا زیادہ فوکس جاتلاں شہر اور منگلا /جاتلاں تباہ ہونے والی مین شاہ راہ پر رہا۔ سڑکیں دھنسنے کے سبب کئی علاقوں تک امدادی ٹیمز کی رسائی ممکن نہیں ہو پا رہی تھی، تاہم افواجِ پاکستان کی امدادی ٹیمز نے دیہات کے لِنک روڈز بڑی حد تک کلئیر کر دیے ہیں۔ 

فوج کے افسران اور جوانوں کے پہنچنے پر متاثرینِ زلزلہ کے حوصلے بلند ہوئے۔ فوجی جوانوں نے نہ صرف زخمیوں کو ملبے سے نکالنے اور راستے بحال کرنے میں مدد کی، بلکہ متاثرین کو کھانا اور ادویہ بھی فراہم کیں۔ فلاحی اداروں المصطفیٰ ویلفئیر ٹرسٹ، یو کے اور المصطفیٰ ویلفئیر سوسائٹی کی جانب سے متاثرینِ زلزلہ جاتلاں و گردونواح میں 500 افراد کو روزانہ کی بنیاد پر کھانا مہیا کیا گیا۔ مسلم ہینڈز یوکے، ایدھی ویلفئیر ٹرسٹ، ریڈ کریسنٹ پاکستان، بانی العبیدیہ آرفن یو کے، چوہدری ظفر اقبال کے کارکنان، کے آئی آر ایف، راول پنڈی سے آنے والی ریسکیو 1122کی ٹیمز اور دیگر متعدّد تنظیمیں بھی امدادی کاموں میں پیش پیش رہیں۔

وزیرِ اعظم آزاد کشمیر، راجا فاروق حیدر خان نے زلزلے کی اطلاع پاتے ہی ہنگامی طور پر میرپور پہنچ کر نہ صرف زخمیوں کی عیادت اور شہداء کے ورثاء کی دِل جوئی کی، بلکہ دوردراز کے دیہات جا کر امدادی کاموں کی نگرانی بھی کی۔ آل جمّوں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم، سردار عتیق احمد خان نے بھی راجا فاروق حیدر سے سیاسی و نظریاتی اختلافات کے باوجود کندھے سے کندھا ملا کر متاثرین سے بھرپور یک جہتی کرکے ایک اچھی روایت قائم کی۔ 

چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے نہ صرف خود متاثرہ علاقوں کا فضائی اور زمینی جائزہ لیا، بلکہ سِول انتظامیہ کی مدد کے لیے آرمی کے 3دستے اور میڈیکل اسٹاف بھی بھیجا، جس نے متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دَوران چوہدری محمّد سعید عدالتی فیصلے کے روشنی میں وزیر سے سابق وزیر ہوگئے، لیکن اس کے باوجود وزیرِ اعظم، آزاد کشمیر کے ہم راہ متاثرین کے درمیان رہے، جب کہ جمّوں و کشمیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، چوہدری ابراہیم خالد، سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس راجا سعید اکرم، آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار یعقوب خان، وزراء ڈاکٹر نجیب نقی، چوہدری رخسار احمد، راجا مشتاق منہاس، چوہدری اسماعیل، راجا صدیق، سردار امیر اکبر، چوہدری مسعود خالد، کرنل (ر) وقار احمد نور، مصطفیٰ بشیر، چوہدری محمّد اسحاق، سیّد شوکت شاہ، محمّد احمد رضا قادری اور مقبوضہ کشمیر کی حریّت قیادت کے نمائندے محمّد اسلم ملک، فیض نقش بندی، محمود احمد ساگر، امیر جماعتِ اسلامی آزاد کشمیر ڈاکٹر خالد محمود،WHOپاکستان کے نمائندے ، PALTHA MAYA PALIAاور آرمی حکّام نےDHQاسپتال میرپور میں زخمیوں کی عیادت اور متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔

زلزلے کے دوسرے روز پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ، سردار عثمان بزدار، وفاقی وزیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان، چیئرمین این ڈی ایم اے، لیفٹیننٹ جنرل محمّد افضل اور وفاقی سیکرٹری امورِ کشمیر و گلگت بلتستان، طارق محمود پاشا نے بھی زخمیوں کی عیادت اور زلزلہ متاثرین سے ملاقاتیں کی۔ تحریک انصاف کے صدر اور سابق وزیرِ اعظم، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا امریکا سے ٹیلی فونک پیغام میں کہنا تھا کہ’’ نیویارک سے ڈاکٹرز کی ٹیمز بھیجیں گے۔ یہ بہت بڑا سانحہ ہے اور متاثرین کی بحالی کے لیے سب سے رابطے میں ہوں۔‘‘ زلزلے کے تیسرے روز وزیرِ اعلیٰ، عثمان بزدار کی جانب سے متاثرین کے لیے ایک ہزار خیمے اور 12ٹرکوں پر مشتمل ضروری سامان پہنچایا گیا۔ 

عالمی ادارۂ صحت کی طرف سے 30لاکھ روپے کی ادویہ حکومتِ آزاد کشمیر کے حوالے کی گئیں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے متاثرین کو ایک ہزار کمبل، 70خیمے اور 4جنریٹر فراہم کیے۔ مالی نقصانات کے حوالے سے سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ زلزلے سے 1619مکانات مکمل تباہ ہوئے، جب کہ 7100 کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ اسی طرح مویشیوں کے 580 باڑے تباہ ہوئے، لیکن حقیقتاً نقصان اس سے کئی گُنا زیادہ ہوا۔ بہت سے متاثرین کا کہنا ہے کہ زلزلے کے کئی روز گزرنے کے باوجود اُن تک امداد نہ پہنچ سکی۔ میرپور کی نواحی بستی چتر پڑی میں 32کنال 8مرلے پر 50کروڑ روپے سے زائد مالیت کے تباہ ہونے والے میرج ہال کے مالک، چوہدری محمد صدیق کا کہنا تھا کہ’’ مدد تو دُور کی بات، 3روز کسی نے حال تک نہیں پوچھا۔‘‘

سیکرٹری برقیات، آزاد کشمیر ظفر محمود خان کا کہنا تھا کہ ’’15فیڈرز، 104ٹرانسفارمرز، 1500سے2000میٹرز اور دیگر املاک کے مثاثر ہونے سے مجموعی طور پر 5کروڑ رپے کا نقصان ہوا۔ سب سے زیادہ تباہی جاتلاں، سموال شریف، ساہنگ اور دیگر ملحقہ دیہات میں ہوئی۔ تاہم، چند گھنٹوں کے اندر اندر متاثرہ علاقوں کی بجلی 100فی صد بحال کر دی گئی۔‘‘ آزاد کشمیر میں پاک فوج کے ادارے اسپیشل کمیونی کیشن آرگنائزیشن (SCO)میرپور ڈویژن کے ترجمان ،چوہدری جہانگیر شہزاد کے مطابق زلزلے سے انٹرنیٹ، ایس کام اور لینڈ لائن سروس بُری طرح متاثر ہوئی، لیکن ایس سی او کے قابلِ فخر انجینئرز اور فوجی جوانوں نے محض چند گھنٹوں میں تمام سروسز بحال کرکے متاثرینِ زلزلہ کو فوری ریلیف فراہم کیا۔ 

اسٹیشن ڈائریکٹر اور کنٹرولر ریڈیو پاکستان برانچ، آزاد کشمیر میرپور چوہدری محمّد شکیل نے بتایا’’ زلزلے سے سرکاری ریڈیو کے اثاثوں کو شدید نقصان پہنچا، لیکن اس کے باوجود نشریات لمحہ بھر کو بھی تعطّل کا شکار نہیں ہونے نہیں دی گئیں۔‘‘ زلزلے کے دَوران پاکستان کا سب سے بڑے آبی ذخیرے، منگلا ڈیم پر قائم پاور ہائوس سے فوری طور پر بجلی کی سپلائی بند کر دی گئی اور نہر کے کچھ حفاظتی پُشتوں کو نقصان پہنچنے کے باعث اور آبادی کے تحفّظ کے لیے نہر’’ اپر جہلم‘‘ کو بھی بند کر دیا گیا۔ تاہم، معائنے کے بعد منگلا ڈیم کو محفوظ قرار دیا گیا ۔ تیسرے ہی روز جاتلاں /منگلا نہر اپر جہلم روڈ پر ٹریفک بحال کر دی گئی۔

وزیرِ اعظم، راجا فاروق حیدر کی اپیل پر 27ستمبر بروز جمعہ آزاد کشمیر میں ’’یومِ توبہ‘‘ منایا گیا۔ اگر گزشتہ 7دہائیوں میں آزاد کشمیر کے ضلع میرپور میں آنے والے زلزلوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں، تو 8اکتوبر 2005 ء کے زلزلے سے میرپور شہر بھی متاثر ہوا اور 6افراد شہید،21 افراد زخمی ہوئے، جب کہ چند مساجد کے مینار بھی شہید ہوئے۔ زلزلے سے منگلا جھیل میں شدید ارتعاش پیدا ہوا اور پانی کی لہریں گویا آسمان کو چُھونے لگیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے منگلا ڈیم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ 

دوسری مرتبہ، 15اور16فروری 2006ءکی درمیانی شب، 12بج کر 25منٹ پر میرپور میں 5.2کی شدّت سے آنے والا زلزلہ شہریوں کے لیے ایک معمّا ہی رہا کہ زلزلہ نُما جھٹکے کا یہ واقعہ صرف میرپور ہی میں پیش آیا۔ اس حوالے سے کئی دنوں تک شہریوں میں بحث چلتی رہی۔ پشاور زلزلہ مرکز سے تصدیق کے باوجود مُلک کے کسی اور حصّے میں اس زلزلے کے اثرات محسوس نہیں گئے، لیکن 23روز بعد 10مارچ کو دن 12بج کر 50منٹ پر زلزلہ آیا، جس کی شدّت 5.2ریکارڈ کی گئی۔ اُس زلزلے میں 24افراد زخمی اورایک نوجوان شہید ہوا۔ نیز، بے شمار عمارتوں میں دراڑیں پڑ گئیں، جب کہ دیواریں اور چھتیں گرنے کے واقعات بھی ہوئے۔ 

چندرال ہملیٹ میں ایک مسجد کا مینار شہید ہوا، جب کہ شہر کی مرکزی جامع مسجد کا بلند مینار اپنے جھکائو کی وجہ سے انتہائی خطرناک صَورتِ حال اختیار کر گیا۔ زلزلے کا دوسرا جھٹکا 2بج کر 41منٹ پر آیا، جس کی ریکٹر اسکیل پر شدّت 4.7تھی۔ اس سے مضافاتی دیہات پل منڈا، چھابریاں، بنگ دوارہ اور سموال شریف میں کروڑوں روپوں کی 200املاک کو جزوی نقصان پہنچا۔ پل منڈا سے سموال شریف جانے والی سڑک زمینی کٹائو کی وجہ سے بند ہوگئی۔ پل منڈا نہر اپر جہلم کے جنوبی کنارے پر سڑک زمین میں دھنس گئی، جس سے مجموعی طور پر کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ 

اُس وقت کے وزیر اعظم، سردار سکندر حیات خان نے دورۂ میرپور کے موقعے پر کہا’’ ہم سے پتا نہیں کون سی غلطی ہو گئی، جس کی وجہ سے اللہ ہم سے ناراض ہو گیا۔ ہمیں اجتماعی طور پر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔‘‘ زلزلہ مرکز منگلا کے ڈپٹی ڈائریکٹر، کاظم مہدی نے انکشاف کیا کہ 10مارچ 2006ءکو میرپور میں آنے والا زلزلہ، 8اکتوبر 2005ء کے مظفرآباد میں آنے والے زلزلے کا آفٹر شاک نہیں تھا، بلکہ 8اکتوبر کے زلزلے کے بعد ’’جہلم فالٹ‘‘ حرکت میں آگیا تھا۔ اس زلزلے کا مرکز منگلا سے پیر گلی اور ڈڈیال کے درمیان تھا اور اُس کی گہرائی 11.5کلو میٹر تھی ۔ 

عینی شاہدین کے مطابق، سموال شریف کی شمالی جانب’’ترپا‘‘ کی پہاڑی میں، جو نیو سٹی پراجیکٹ سے ملحق ہے، زلزلے کے وقت دھوئیں اور گردوغبار کے گہرے بادل چھا گئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہی ایریا زلزلے کا مرکز تھا۔ پھر یہ کہ 10مارچ 2006ء اور حالیہ زلزلے میں جغرافیائی اعتبار سے بہت مماثلت ہے۔ اس لیے آزاد کشمیر حکومت کو ماہرین کی آراء کی روشنی میں اس خطّے میں فوری طور پر’’ بلڈنگ کوڈز‘‘ کا نفاذ اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروانا چاہیے۔ 

لوگ زلزلوں سے نہیں، بلکہ عمارتیں گرنے سے مرتے ہیں، چوں کہ یہ خطّہ فالٹ لائن پر واقع ہونے کی وجہ سے آئندہ بھی زلزلوں کی زَد میں آ سکتا ہے، اس لیے ہمیں جاپان کی طرز پر اقدامات کرتے ہوئے زندگیوں اور املاک کو محفوظ بنانا ہوگا۔ 

وزیرِ اعظم آزاد کشمیر، راجا فاروق حیدر خان نے زلزلے سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے منظّم سروے کی ہدایت کی ہے، جس کے بعد ہی اصل اعداد وشمار سامنے آ سکیں گے، کیوں کہ تباہی اس سے کہیں زیادہ ہے، جتنی نظر آرہی ہے۔

اس ضمن میں چیف سیکرٹری، آزاد کشمیر، مطہر نیاز رانا کا کہنا ہے کہ نقصانات سے متعلق سروے جلد مکمل کرلیا جائے گا۔ اِس سلسلے میں حکومت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو، فیّاض عباسی اور کمشنر میرپور، چوہدری محمّد طیب کو دو ہفتوں کو اندر زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے نقصانات کا جائزہ اور بحالی کے لیے لائحہ عمل پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

تازہ ترین