• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چاکلیٹی ہیروکے نام سے مشہور پاکستان کے لیجنڈری اداکار وحید مراد کی موت کو معمہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔

سانولی رنگت پہ مخمور نگاہیں اور خوش لباسی نے اعلیٰ تعلیم یافتہ وحید مراد کو اپنے دور کا سب سے مقبول فلمی ہیرو بنا دیا تھا۔ اس پہ قیامت ان کا ہیئر اسٹائل تھا جس کو دیوانہ وار نقل کیا جاتا تھا۔

انہیں ’وومن کِلر‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جس طرف آنکھ بھر کر دیکھ لیتے سامنے والا جکڑا جاتا۔انہوں نے 124 فلموں میں کام کیا جو آج بھی لالی وڈ کا اثاثہ ہیں۔

وفات کے 27 سال بعد 2010 میں ان کو تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔

وحید مراد کا ستمبر 1983 میں لاہور میں راوی روڈ پر کار چلاتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہو ا تھا۔ علاج کے بعد بھی ہونٹ اور ایک آنکھ کے پپوٹے پر زخم کا نشان رہ گیا جس کے بعد پلاسٹک سرجری کا مشورہ دیا گیا۔

وحید مراد کی موت کیسے ہوئی؟
وحید مُراد کے عروج کی کہانی جتنی دلچسپ ہے اسکے زوال کا قصّہ بھی اتنا ہی عبرت انگیز ہے

11 نومبر کو وہ اپنے چھ سالہ بیٹے عادل کو ساتھ لے کر کراچی چلے گئے۔ ان کی اہلیہ سلمیٰ مراد اپنی بہن مریم عیسیٰ سے ملنے امریکہ گئی ہوئی تھیں۔  ان کی بیٹی عالیہ بھی ساتھ گئی تھیں۔

کراچی میں وحید کے دو فلیٹ تھے لیکن وہ ڈیفنس سوسائٹی میں اپنی منہ بولی بہن بیگم ممتاز ایوب کے گھر ٹھہرے۔ 13 نومبر کو اُنہوں نے عادل کی ساتویں سالگرہ منائی۔ اگلے دن مِڈ ایسٹ اسپتال میں پلاسٹک سرجری کے آپریشن کے لیے وقت لیا۔

انہیں 24 نومبر کا کوئی وقت دیا گیا لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔

جنگ نیوز
1967 کے بعد سے وحید مراد  کا ہیئر اسٹائل نوجوانوں میں بے حد مقبول تھا

نومبر کی 23 تاریخ کو علی الصبح ان کے دل کی دھڑکن بند ہو گئی۔ ان کی میّت اُن کی والدہ کے پاس لاہور لے جائی گئی۔ وہ صدمے سے بے حال ہو گئیں۔

وحید مراد کی وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ لاہور میں اسٹوڈیوز بند ہو گئے۔ نا صرف فلمی صنعت کے لوگ اُن کی کوٹھی کی طرف چل پڑے بلکہ مداحوں کا ایک ہجوم بھی جنازے کے لیے جمع ہو گیا۔

ہدایت کار شوکت ہاشمی کا بیان ہے کہ وحید مراد کے جنازے میں تقریباً پچیس تیس ہزار کا مجمع تھا ۔

تازہ ترین