• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حبیب احمد

سخی حسن کا قبرستان کراچی شہر کے نواحی علاقے میں وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے، یہ شادمان ٹاؤن میں حضرت بہزاد لکھنوی کے مزار سےشروع ہو کر نصرت بھٹو کالونی کے قریب قلندریہ چوک پرختم ہوتا ہے۔

اب نئی قبروں کی گنجائش نہیں ہے

اس قبرستان میں مشہور اور معرف شخصیات بھی محو خواب ہیں، جن میں شعرائے کرام، اداکار، گلوگار، مصور، ، سیاسی رہنما شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس میں تقریباً تین لاکھ سے زائدقبریں ہیں۔اس قبرستان کو حضرت مخدوم میاں صوفی سخی حسن شاہ مشرفی، رحمانی، سکندری، الہ آبادی کےنام سے موسوم کیا گیا ہے ، جو گزشتہ صدی کے ایک صوفی بزرگ تھے، جن کا مزار شریف یہاں سے تقریباً تین فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہے اور اسی کی مناسبت سے قبرستان کے علاوہ اس کے ساتھ کا تمام علاقہ سخی حسن کہلاتا ہے۔

قبرستان کے احاطے میں حضرت بابا قلندر اولیاء کی درگاہ، دارالعلوم اور آستانہ بھی واقع ہیں جب کہ اس سے ذرا فاصلے پر سخی حسن چورنگی کے ساتھ حاجی جمیل عارفی سرکار کا مزار مبارک بھی واقع ہے۔نارتھ ناظم آباد ٹاؤن ایڈمنسٹریشن کے دسمبر2003ء میں جاری اعلامیے کے مطابق مذکورہ قبرستان میں نئی قبروں کی گنجائش ختم ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے اسے تدفین کے لیے بند کردیا گیا ہے ۔

اس قبرستان میں تقریباً دو فٹ کی بلندی پر کئی کئی فٹ اونچی قبریں بنائی گئی ہیں، جن میں قیمتی پتھروں ، سنگ مرمر اور سنگ سیاہ کا وافر مقدار میں استعمال کیا گیا ہےاور یہ قبریں سر سبز پودوں، بلند و بالا اور گھنے درختوں سے ڈھکی ہوئی ہیں ۔ 

اس میں داخلے کے چار مرکزی دروازے ہیں جن میں سے تین نصرت بھٹو کالونی سے سخی حسن چورنگی کی طرف جانے والی شاہ راہ پر جب کہ ایک دروازہ عقب میں شادمان ٹاؤن کی رابطہ سڑک پر واقع ہے ، اس کے علاوہ درجنوں چھوٹے چھوٹے راستے موجود ہیں، جو سایہ دار درختوں میں گھرے ہوئے ہیں۔

مرکزی دروازے سے اگر داخل ہوں تو یہاں شروع میں کتبے بنانے اورپھول پتیاں فروخت کرنے والوں کی دکانیں ہیں، ان کے ساتھ ایک پختہ سڑک شروع ہوتی ہے، جس پر کئی عالی شان مزار بنے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک مزار کے احاطے میں تقریباً دوسو قبریں ہیں جو مذکورہ بزرگ کے مریدین اور عزیز و اقارب کی ہیں۔ یہاں میاں صابری اور احمد میاں کے مقبرے بھی واقع ہیں۔ اسی سڑک پر تاج محل کی طرز کا ایک عظیم الشان مزاربھی نظر آتا ہے،اس کا رقبہ کئی ہزار مربع گز پر مشتمل ہے ۔

تاج محل کی طرز پراس کے اوپر بھی ایک گول اور بلند و بالا خوب صورت گنبد بنا ہواہے، جو دور سے دکھائی دیتا ہے۔ اس مقبرے کا زیادہ ترحصہ سنگ مرمرسے تعمیر کیا گیا ہے ، اس کاصحن وسیع و عریض ہے جس کے ساتھ پختہ اور چمکیلی روش بنی ہوئی ہیں، اطراف میں خوش رنگ پھول اورسر سبز و شاداب قطعات ہیں۔ اس کے دروازے انتہائی خوب صورت اور قیمتی لکڑی سے تیار کیے گئے ہیں جن پر نقش نگاری کا نفیس کام کیا گیا ہے۔ فرش پرغیر ممالک سے درآمد کیےگئے بیش قیمت ٹائلز لگے ہوئے ہیں۔

روشنی اور ہوا کے لئے جدید تعمیراتی فن کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور خوب صورت کھڑکیاں بنائی گئی ہیں ۔ اس کی سجاوٹ اسی اندازسے کی گئی ہے جیسے کسی عالی شان محل کی کی جاتی ہے۔ مذکورہ مقبرے میں ایک بزرگ شاہ شاہد اللہ فریدی آرام فرما رہے ہیں۔ وہ 1915ء میں انگلستان میں پیدا ہوئے، ان کا نام جان گلبرٹ لینارڈ رکھا گیا۔، حضرت علی ہجویری کی صوفیانہ تصنیف ، کشف المحجوب کےانگریزی ترجمے کے مطالعے کے بعد اسلام قبول کیااور روحانی علوم کی طرف مائل ہوئے۔

ان میں انہوں نے اس قدر دسترس حاصل کرلی کہ دینی تبلیغ و تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے روحانیات اور صوفی ازم پر کئی تصنیفات تحریر کیں۔ ان کے مریدین میں زیادہ تر غیر ملکی شامل تھے۔ 1978ء میں ان کے وصال کے بعد ان کی تدفین سخی حسن قبرستان میں کی گئی، بعد میں ان کے مریدین نے یہاں ایک عالی شان مقبرہ تعمیر کروایا۔ اس مقبرے کی پرشکوہ عمارت کے احاطے میں ان کے تیس مقامی و انگریز مرید ین بھی مدفون ہیں، ان کی قبریں بھی سنگ مرمراور سنگ سیاہ سے تعمیرکی گئی ہیں۔

اس کے اندر ایک خوب صورت دو منزلہ مسجد بھی بنی ہوئی ہے۔مقبرے کی دیکھ بھال اور صفائی کے لیے کئی نجی ملازمین کام کررہے ہیں جن کو باقاعدہ تنخواہیںادا کی جاتی ہیں ۔ مقبرے میں عام لوگوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہے جب کہ مریدین کے لیے ہفتے میں دو روز دروازے کھولے جاتے ہیں، جہاں لوگ فاتحہ خوانی کی غرض سے آتے ہیں۔ یہاں آنے والے زائرین کی سہولت کے لیے قبرستان کے گیٹ سے مقبرے کی عمارت تک سیاہ سلفیٹ کی سڑک تعمیر کرائی گئی ہے اور ان دو دنوں میں یہاں قیمتی کاروں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔

قبرستان میں مدفون افراد کے لواحقین نے اپنے طور سےبورنگ کرائی ہوئی ہے۔ اس قبرستان کا شمار شہر کے وی آئی پی قبرستانوں میں ہوتا ہے،یہاں اہم شخصیات کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، ان ہی کی طرف سے اپنے اعزاء کی قبروں کی دیکھ بھال کے لیےگورکنوں کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، جس کی وجہ سے ان کا روزگار چل رہا ہے۔پورے قبرستان میں گھنے درخت سایہ کیے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں قبروں کے اطراف زیادہ تر تاریکی چھائی رہتی ہے۔

میتوں کی تدفین یا فاتحہ خوانی کی غرض سے آنے والے افرادبلند وبالا قبروں کی آڑ میں چھپے ہوئے لٹیروں کے ہاتھوں نقد رقومات، قیمتی اشیاء، موبائل فون سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہاں قبروں کے دمیان بجلی کے پول اور لائٹوں کی تنصیب انتہائی ضروری ہے۔ قبرستان کی شمالی دیوار کے ساتھ سڑک کے درمیان پولیس کی چوکی بنی ہوئی ہےلیکن وہاں پولیس اہل کار شاذو نادر ہی نظر آتے ہیں۔ 

زیادہ تر قبروں کے اوپر کپڑے اور ترپال کے سائبان نظر آئے، کیوں کہ درختوں پر پرندوں کا بسیرا رہتا ہے، جن کی گندگی قبروں پر گرتی ہے۔ اپنے عزیزوں کی قبروں کو غلاظت سے بچانے کے لیے لوگوں نے ان کے اوپر سائبان ڈالوا دیئے ہیں۔ یہاں مختلف برادریوں نے قبروں کی اراضی مخصوص کروائی ہوئی ہیں۔ ہر برادری یا خاندان نے اپنی مخصوص کی ہوئی جگہوں کے لیے قبرستان کے گورکنوں کو ملازم رکھا ہوا ہے۔

سخی حسن کے قبرستان کے گیٹ نمبر دو کے ساتھ کئی معروف شخصیات محو خواب ہیں۔معروف شاعر، مرثیہ نگار اور ناولسٹ ،خواجہ محمد امیر، المعروف صبا اکبر آبادی جو بانی پاکستان کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سکریٹری بھی رہے 29؍اکتوبر 1999ء کو اسلام آباد میں انتقال کے بعد یہیں مدفون ہوئے۔ 

ان کے بالمقابل بلند وبالا قبروں کے درمیان ورسٹائل گلوکار،راک اینڈ رول کے بادشاہ اور برصغیر کے پہلے پاپ سنگر ، احمد رشدی محو خواب ہیں، ان سے ذرا فاصلے پراداکارہ تمنا بیگم اور گلوکار مجیب عالم کی قبریں ہیں۔ 1970ء میں پی ٹی وی کے ڈرامے ’’دوبئی چلو‘‘ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والے ملک انوکھا بھی یہیں دفن ہیں۔ ڈرامہ گلڈ کے بانی صدر اور مشہور ڈرامہ نگار خواجہ معین الدین، جن کے ڈرامے ’’مرزا غالب بندرروڈ پر‘‘ ، ’’لال قلعہ سے لالوکھیت تک‘‘ کافی معروف ہوئے، نومبر 1971میں انتقال کے بعد اسی قبرستان میں دفن ہوئے۔

ریڈیو پاکستان کے جریدے’’ آہنگ‘‘ کے شعبہ ادارت سے وابستہ غزل گو شاعر فاروق احمدجو محشر بدایونی ، وہ بھی یہیں مدفن ہیں۔ اس قبرستان میں ایک وسیع و عریض احاطے میں معروف فلاسفر اورشاعر رئیس امروہوی، ان کے چھوٹے بھائی روزنامہ جنگ کے سابق مدیر، فلسفی، کارل مارکس کی تصنیف ’’داس کیپٹل‘‘ کو اردو قالب میں ڈھالنے والے سید محمد تقی، شاعرسید جون اصغر، عرف جون ایلیا،رئیس برادران کے سب سے چھوٹے بھائی محمد عباس جو عالمی ڈائجسٹ کے مدیر تھے، اسی احاطے میں دفن ہیں۔

فن خطاطی میں تمغہ امتیاز اور ستارہ امتیاز پانے والے سید صادقین احمد نقوی اسی گورستان میں آرام فرمارہے ہیں۔ دبستان دہلی کے آخری چراغ، غزل گو شاعر اور براڈکاسٹر، تابش دہلوی، افسانہ نگار، نثری نظم کے بانی ۱حمد ہمیش کی قبریں بھی یہیں ہیں۔ ’’ ماضی کے مزار‘‘ کےتصنیف نگار سبط حسن، صدارتی تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والے ٹی وی اداکار انور سولنگی اور صوفیانہ کلام کے گائیک، اقبال باہو بھی یہیں مدفون ہیں۔

مذکورہ قبرستان کے ساتھ محل نما بنگلوں کی قطاریں ہیں، جن کے سامنے تقریباً چار ایکڑ رقبے پر ایک وسیع و عریض احاطہ بنا ہوا ہے، جس میں خوش رنگ پھول، پودے اور سبزہ زار ہے، اس کے ساتھ ایک اونچے مینار پر محافظوں کی چوکی بنی ہوئی ہے۔ ایک بڑے سے گیٹ سے جب اندر داخل ہوں تو گماں بھی نہیں ہوتاکہ ہم کسی قبرستان میں داخل ہورہے ہیں۔ 

یہ اسماعیلیوں کا قبرستان ہے، جس میں تقریباً ایک ہزار کے قریب قبریں ہیں، قابل ذکر بات یہ ہے کہ تمام قبریں کچی بنی ہوئی ہیں۔ اس میں دو بڑے ہال ہیں جن میں نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے۔یہاں روشنی کا اعلیٰ انتظام ہے، اور ہر قبر کے ساتھ برقی قمقمے لگے ہوئے ہیں۔ مذکورہ قبرستان ، سخی حسن کی حدود میں ہی واقع ہے ۔

تازہ ترین