سولہویں صدی کے ہسپانوی ناول نگار سروانٹے کا ناول ڈان کیخوٹے عالمی ادب میں بہت بلند مقام رکھتا ہے۔ اساتیری شہرت کی حامل یہ داستان دوکرداروں کیخوٹے اور سانچواپانزا کے گردگھومتی ہے۔ پکاسو اور ڈالی جیسے مصوروں نے ڈان کیخوٹے کو اپنی تصاویر کا موضوع بنایا ہے۔ لمبا اور سینک سلائی ڈان کیخوٹے اپنے سے بھی نحیف گھوڑے پر سوار دنیا کی ہر طاقت سے ٹکرا جانا چاہتا ہے۔ اُس کا ٹھنگنا اور پھولے ہوئے پیٹ والا حاشیہ نشین سانچوا پانزا اُسے حقیقت کی دنیا میں لانا چاہتا ہے مگرکیخوٹے پر سامنے نظر آنے والی ہر چیز فتح کرنے کی دُھن سوار ہے۔ وہ پون چکیوں کو اپنا دشمن قرار دے کر فتح کا خواب لیے اندھا دھند حملہ آور ہوتا ہے۔ پون چکیوں کے بازو اُسے اُٹھا کر گھوڑے سمیت زمین پر پٹختے ہیں۔ مگر ڈان کیخوٹے اپنے کپڑے جھاڑ کرکسی اور دشمن سے ٹکرانے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ پھر کسی رکاوٹ سے ٹکرا کر زمیں بوس ہوتا ہے۔ سانچوا پانزا اپنے مالک کو حقائق سے آگاہ کرنے کی ایک اور ناکام کوشش کرتا ہے۔ لیکن کیخوٹے کچھ توقف کے بعد زمین سے اُٹھتا ہے ۔ اپنے غیر مرئی دشمنوں کی سازش بیان کرتا ہے ، اپنی مافوق الفطرت صلاحیتوں کے گن گاتا ہے اور اگلی مہم میں فتح کا یقین لیے بگٹٹ دوڑتا نظر آتا ہے۔
بدھ کے روز پاکستان کا ڈان کیخوٹے ایک اور ہزیمت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر بلبلاتے ہوئے دیکھا گیا۔ اگر جمہوریت شہریوں کے حقوق کا دمدمہ ہے تو کہنا چاہیے کہ چتوڑ گڑھ کے قلعے پر عبدالشکور قادری کا دوسرا حملہ بھی ناکام رہا۔ ادھر باخبر لوگ یہ کہتے پائے گئے کہ مولانا قادری کی اپنی ذات والا تبارک میں اتنا دم کہاں، اس چوبی رہوار کی دم میں کسی اور نے فلیتہ باندھ رکھا ہے۔ مگر صاحب کون؟ عام طور سے اس سوال کا جواب یہ ملتا ہے کہ قادری صاحب نے وطن مالوف کو ماؤف کرنے کی مہم کے آغاز میں مطالبہ کیا تھا کہ نگران حکومت کی تشکیل میں عدلیہ اور فوج کو بھی شریک کیا جائے۔ تو بھائی ہمارے ڈان کیخوٹے نے عدلیہ یا فوج کی شہ پر کمر باندھ رکھی ہے۔ لیکن یہ جواب مسکت نہیں۔
جن دنوں ڈان کیخوٹے نے ایک لشکر بے اماں کی معیت میں اسلام آباد پر چڑھائی کر رکھی تھی تو ایک خبر کے مطابق جنرل کیانی نے چیف الیکشن کمشنر کو کسی خوف و خطر کے بغیر انتخابات کی تیاری کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ تو صاحب پاکستان میں تو کرنیلی بغاوت کی روایت نہیں اور جنرل صاحب کی طرف سے خود ساختہ شیخ الاسلام کو اشیر واد کا معمولی سا اشارہ نہیں ملا۔ پاکستان کی فوج کا سربراہ ایسے کچے گھوڑے پر داؤ نہیں لگا سکتا جو صحافیوں کے ایک سوال کا شافی جواب نہ دے سکے اور عدالت کی ایک گھرکی کا سامنا نہ کر سکے۔ جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو مولانا موصوف کی آئینی درخواست پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ قابل تحسین ہے ۔ اس سے ملک کے ایک کلیدی آئینی ادارے کی طرف سے جمہوری عمل کی تائید واضح ہوئی ہے۔ ادھر حزب اختلاف کی جماعتوں نے لاہور میں مل بیٹھ کر سیاسی تدبر کا ایسا مظاہرہ کیا جس کی نظیر 1973ء کے آئین کی تدوین میں حزب اختلاف کے کردار ہی میں ملتی ہے۔ اس معاملے میں ذرائع ابلاغ کا بھی ایک ممکنہ کردار تھا۔ جہاں تک صحافیوں کا تعلق ہے ، ایک آدھ استثنیٰ کے ساتھ ہر طرف سے ایسی بے بھاؤ کی پڑیں کہ ڈان کیخوٹے کی طبیعت ہری ہو گئی۔ کہنا چاہیے کہ پاکستان میں جمہوری ثقافت کی شاخوں پر برگ و بار آ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں بہت احتیاط سے اس نازک پودے کی ایسی پرداخت کی گئی ہے کہ آج پاکستان میں جمہوری عمل کا راستہ روکنا قریب قریب ناممکن نظر آتا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی واضح ہے کہ پس پردہ کوئی ساحر ضرور ہے جو جمہوریت پر نقب لگانا چاہتا ہے۔ جس نے اس تواتر کے ساتھ سیاسی قیادت کی ٹانگ لی ہے کہ آج اگر کوئی جمہوریت کی حمایت کرنا چاہے تو اپنے سر پر توا باندھ کے نکلے۔ جمہوریت کی فصیل پر چاندماری کا سلسلہ عبدالشکور قادری کی آمد سے بہت پہلے شروع ہوا تھا۔ آج بھی بڑے دھارے کی سیاسی قوتوں کی ممکنہ کامیابی کو گٹھ جوڑ کا نام دے کر ابھی سے آئندہ حکومت کی راہ میں کانٹے اور بارودی سرنگیں بچھانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ تو بھائی کون ہے جو پاکستان میں بسنے والوں کے سینے پر مونگ دلنا چاہتا ہے۔ بات یہ ہے کہ گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران پاکستان میں رہنے والوں نے اتنے زخم کھانے کے بعد بہت کچھ سیکھا ہے۔ آج بطور ایک ادارے کے عدلیہ جمہوریت کی مخالف ہے اور نہ فوج۔ سیاست دان بھی سمجھتے ہیں کہ جمہوری بندوبست کی کامیابی کے لیے اس کا تسلسل ضروری ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں ایک عمومی ذہن موجود ہے جو قومی ریاست کے جدید خدوخال ہی سے منکر ہے۔
یہ تحریک خلافت کا ہارا ہوا لشکر ہے جو ریاست کی جغرافیائی حدود کو تسلیم کرتا ہے اور نہ اس میں بسنے والوں کے عمرانی معاہدے یعنی دستور پاکستان کو مانتا ہے ۔ سرد جنگ کے زمانے میں فوجی طالع آزماؤں نے دائیں بازو کو اپنا حلیف قرار دیا تو سیاسی اور معاشرتی پسماندگی کے شکار اس گروہ کو سازگار ماحول میسر آیا۔ تاریخ کے بہاؤ کی مخالف سمت میں تیرنے والوں نے سیاست، تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ کو بلا شرکت غیرے اپنی جولاں گاہ سمجھ لیا۔ سرکاری اہل کار نے خود کو حقیقی حکمران قرار دے لیا، سیاست دان نادیدہ قوتوں کا گماشتہ بن گیا۔ صحافی نے خود کو خدائی فوجدار ٹھہرا لیا۔ اہل منبر و محراب نے تقدیس کے عمامے میں مفادات کی فصل اٹھانے کو اپنا پیدائشی حق گردانا۔ وطن سے محبت کو سیاسی اور معاشرتی رجعت پسندی کے مترادف قرار دیا گیا۔ قوم کے خلاف اس مجرمانہ گٹھ جوڑ کا سلسلہ ہماری تاریخ کے تاریک عشروں پر محیط ہے ۔
ہمارا معاشی زوال اور تہذیبی انحطاط اسی کا نتیجہ ہے۔ اب اندرون ملک اور بیرونی دنیا میں ہر جگہ حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیے ریاست، سیاست اور معاشرت کے از کار رفتہ مفروضے ترک کرنا اب ناگزیر ہو رہا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ہماری سیاسی اور ریاستی قیادت میں اس حقیقت کا ادراک موجود ہے تاہم مقبولیت پسند سیاسی قیادت اس ضمن میں رائے عامہ کی صحیح رہنمائی کرنے سے گریزاں ہے۔ اسی تذبذب کا نتیجہ ہے کہ سیاست ، صحافت اور دوسرے رہنما شعبوں میں طالع آزمائی کا رجحان ابھی تک موجود ہے۔ طاہر القادری صاحب ابھی تک اسی دنیا میں رہتے ہیں جسے وہ کئی برس پہلے چھوڑ کر بحراوقیانوس کے پار گئے تھے۔ حالیہ دنوں میں ان کی وطن آمد دراصل قسمت آزمائی کی مشق تھی۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ پون چکیوں پر ڈان کیخوٹے کا حملہ ناکام رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے احاطے میں ان کی چیخ وپکار سن کر ایک دوست نے کہا ”تانگہ آ گیا کچہریوں خالی“۔ میں نے کہا کہ تانگہ خالی ضرور لوٹا ہے مگر انہیں قید نہیں بولی ۔ یہ سعادت تو ہمارے جمہوری رہنماؤں کا حصہ رہی ہے۔ ان کے آبائی قصبے کی رعایت سے زیادہ مناسب پھبتی رہے گی ”تانگے جھنگ جاندے“۔