• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد ادریس

 راشد کو غصہ بہت آتا تھا۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو جایا کرتا تھا۔ کسی کی مذاق میں کہی ہوئی بات بھی اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ وہ اپنا ذہن بالکل استعمال نہیں کرتا تھا۔ اس کو کوئی بھی آسانی سے کسی کے بھی خلاف بہکا سکتا تھا۔ وہ ہر ایک سے لڑنے کو ہر وقت تیار رہتا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے دوست بہت کم تھے، مگر حامد جو ٹھنڈے مزاج کا لڑکا تھا، اس نے راشد سے دوستی نہیں توڑی تھی۔ 

حامد کو معلوم تھا کہ راشد دل کا برا نہیں، مگر اسے اپنے غصے پر قابو نہیں رہتا۔ وہ اکثر اسے سمجھاتا رہتا تھا کہ’’ تم غصہ نہ کیا کرو، غصہ حرام ہے۔ اپنا ذہن استعمال کیا کرو‘‘۔راشد نے کہا،’’مگر میں کیا کروں ؟ مجھ سے بالکل برداشت نہیں ہوتا اور خاص طور پر غلط بات تو میں برداشت کر ہی نہیں سکتا۔ سب میرے دبلے ہونے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لمبو کہتے ہیں تو مجھے غصہ آ جاتا ہے۔‘‘

’’ تم طاہر اور امین کی باتوں میں کیوں آ جاتے ہو؟ وہ دونوں تو لڑائی جھگڑا کروا کے خوش ہوتے ہیں۔ وہ تمہیں بہکاتے ہیں۔ یقین کرو تمہارے پیچھے کوئی تمہیں کچھ نہیں کہتا۔ کسی کو اتنی فرصت نہیں کہ تمہارے خلاف بات کرے۔وہ دونوں تو تمہیں دوسروں سے لڑوا کر تماشا دیکھتے ہیں۔ تم کو چاہیے کہ تم ان کی باتوں میں نہ آؤ۔ ‘‘حامد نے سمجھایا

مگر راشد چونکہ اپنا ذہن استعمال نہیں کرتا تھا، اسے پھر طاہر اور امین نے بہکایا,’’ دیکھو زبیر تمہیں لمبو کہتا ہے۔ اور کل کس طرح گا رہا تھا اونٹ رے اونٹ! تیری کون سی کل سیدھی۔ ‘‘ یہ اکثر تم پریہ فقرے کستا ہے۔ تم ایک بار اسے مزہ چکھا دو تاکہ آئندہ تمہیں چڑانے کی ہمت نہ کر سکے۔‘‘

’’ میں لڑتا تو ہوں، مگر ہا تھا پائی نہیں کر سکتا۔ وہ بہت طاقتور لڑکا ہے۔ میں اس کا کس طرح مقابلہ کر سکتا ہوں ؟ وہ بہت موٹا بھی ہے۔ ‘‘ راشد نے کہا۔

’’ ہا تھا پائی کی کیا ضرورت ہے ؟ دور سے ہی ایک پتھر اٹھاؤ اور دے مارو‘‘ طاہر اور مین نے مشورہ دیا۔

’’ ہاں، یہ ٹھیک ہے کل میں ایسا ہی کروں گا۔ اب وہ مجھے کچھ کہہ کر دیکھے۔ ‘‘ راشد نے بات مانتے ہوئے کہا۔

دوسرے دن راشد کہیں جا رہا تھا کہ زبیر جو اپنی دکان پر بیٹھا تھا، اسے دیکھتے ہی بولا,’’ ہاں بھئی کھمبے ! کہاں چل دیئے ؟ کیا کہیں بجلی کی تاریں باندھنی ہیں ،جس کے لیے تمہاری ضرورت پڑ گئی؟ تم تو چلتے پھرتے کھمبے ہو۔ ‘‘

راشد تو پہلے ہی بھرا ہوا تھا۔ اٹھا کر ایک وزنی پتھر دے مارا جو نشانے پر بیٹھا اور زبیر کا سر پھٹ گیا۔ یہ حرکت کر کے راشد وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور سیدھا اپنے گھر پہنچا اور کمرے میں جا کر دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ پتا نہیں کیا ہوا ہو گا؟ اس وقت کوئی تھا بھی نہیں۔ اس کا خون تو کافی بہہ گیا ہو گا۔ راشد دل کا برا نہیں تھا۔ اس نے جو کچھ بھی کیا غصے میں کیا، اب اس کو بہت افسوس ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں دستک ہوئی وہ ڈر گیا کہ پولیس تو نہیں آ گئی کہیں۔ اس نے کھڑکی سے دیکھا حامد کھڑا ہوا تھا اس نے دروازہ کھول دیا۔

’’ یہ کیا کیا تم نے ؟ بنا دیا اپنا تماشا پورے محلے والے تمہارے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ ‘‘

’’ وہ۔ ۔ ۔ ۔ وہ زبیر کا زیادہ نقصان تو نہیں ہوا۔ ‘‘ راشد نے حامد کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

’’ چھوڑو، جاؤ جا کر ان ہی کی بات مانو جن کی باتیں تمہیں اچھی لگتیں ہیں اور جو تمہارے خیال میں تمہارے ہمدرد ہیں۔ ‘‘ حامد ے راشد کا ہاتھ جھٹکا۔

’’ مہربانی کر کے مجھے بتاؤ۔ زبیر کا خون زیادہ تو نہیں بہہ گیا۔ ‘‘

حامد نے اسے دیکھا۔ وہ بالکل معصوم نظر آ رہا تھا۔ ’’ کیوں اپنا ذہن استعمال نہیں کرتے ہو؟ زبیر کو وقت پر طبی امداد مل گئی تھی۔ اب وہ بالکل ٹھیک ہے۔ ‘‘

شکر ہے میرے اللہ! راشد نے سچے دل سے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اللہ نے اسے بڑی مصیبت سے بچا لیا تھا۔ اگر زبیر کا زیادہ نقصان ہو جاتا تو راشد کی مصیبت ہی آ جاتی۔ وہ دل سے اس کا نقصان نہیں چاہتا تھا۔ اسے طاہر اور امین نے بہکا دیا تھا۔ وہ حامد کو ساتھ لے کر زبیر کی عیادت کرنے پھول لے کر گیا۔

زبیر اس وقت سو رہا تھا۔ اس کے والدین بہت خوشی سے ملے۔

’’ انکل! میں بہت شرمندہ ہوں ‘‘ راشد نے کہا۔

’’ بیٹے ! تمہارا قصور بھی نہیں ہے۔ ہمارے بیٹے کی عادت ہی کچھ ایسی ہے۔ اس کے ساتھ ایسا ایک نہ ایک دن ہونا تھا۔ کسی کی چڑ بنانا بہت بری بات ہوتی ہے۔ ‘‘ اتنے میں زبیر کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے راشد کو دیکھ کر منہ پھیر لیا اور غصہ سے کہا،’’ اس نے میرا سر پھاڑ دیا تھا۔ میں اس سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا۔ ‘‘

’’ اور تم جو اس کی چڑ بنا رہے تھے ؟ تمہیں اس حرکت کی سزا ملی ہے اور راشد کو دیکھو، وہ پھر بھی شرمندہ ہے، تمہاری عیادت کو آیا ہے۔ پھولوں کا تحفہ لے کر جو محبت کا اظہار ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’ اچھا خود ہی مار کر خود ہی سہلانے آیا ہے۔ ‘‘ زبیر نے کہا

’’ ہاں ! ایسے لوگ بھی کم ہوتے ہیں تم ایک سمجھدار لڑکے ہو۔ پھو ل لانے کا مطلب خود سمجھ جاؤ۔ یہ تم سے دوستی کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘ زبیر کے والد نے کہا۔

’’ نہیں بھئی، مجھے اس کے غصے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ ابھی تو صرف سر پھاڑا ہے، آگے نہ جانے اس کا غصہ کیا رنگ دکھائے ؟‘‘ زبیر نے کہا۔

’’ غصہ میں نے چھوڑ دیا۔ میں حامد کی باتوں پر عمل کروں گا۔ ‘‘ راشد نے کہا۔

’’ تو ٹھیک ہے، میں نے بھی دشمنی چھوڑ دی‘‘ اب ہم دونوں مل کر طاہر اور امین سے بدلا لیں گے وہ دوسروں کو لڑواتے ہیں‘‘۔ زبیر نے راشد سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔

’’ کیا تم لوگوں نے اس لیے ہاتھ ملائے ہیں کہ بدلہ لو۔ بدلا لینا بری بات ہے۔ ‘‘والد صاحب نے کہا۔

’’ نہیں، ہم مذاق کر رہے تھے۔ میرا مطلب ہے کہ ہم پھول دیں گے اور کہیں گے کہ پھولوں جیسے بن جاؤ، دنیا کو مہکاؤ، کانٹوں سے زخمی نہ کرو۔ ‘‘ اور پھر سب ہنسنے لگے۔

تازہ ترین