معصوم زینب کے روح فرسا واقعہ کے بعد قصور کے علاقے چونیاں میں اغوا کے بعد بچوں کے قتل کے واقعات اربابِ اقتدار کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ گزشتہ ڈھائی ماہ میں چار بچوں کو اغوا کرکے قتل کرنے کے واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ پولیس کی روایتی بے حسی اور مجرمانہ غفلت نے حکومت پنجاب کی گڈ گورننس کے تمام دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے۔ ان وارداتوں میں ملوث افراد کو جلد از جلد گرفتار کرکے عبرت کا نشان بنایا جانا چاہئے۔ پوری پاکستانی قوم بچوں کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ ملک میں معصوم بچوں کے ساتھ بدفعلی کے بڑھتے واقعات شرمناک ہیں۔ گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب کی جانب سے محض نوٹس لینا کافی نہیں۔ مجرمان تاحال قانون کی گرفت میں نہیں آس لیے ان کی گرفتاری کے لیے پورے سسٹم کو متحرک کیا جانا چاہئے۔ ایسے گھنائونے واقعات سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ پنجاب بھر میں لاقانونیت بڑھتی جا رہی ہے۔ قوم کو ریاستِ مدینہ کا خواب دکھا کر اور نظام کو بہتر بنانے کے دعوے لیکر اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف بھی عوام سے لاتعلق ہو چکی ہے۔کراچی، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومتی اداروں کی عدم توجہی کے باعث ڈینگی کی وبا پھیل چکی ہے۔ پنجاب، سندھ اور کے پی کی حکومتیں محض زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں، کسی قسم کا کوئی عملی اقدام نظر نہیں آرہا۔ حکومت نے جو صحت کے بجٹ میں کمی کی تھی، اس کا خمیازہ آج عوام بھگت رہے ہیں۔ ایک طرف حکمران صحت کارڈ کا واویلا کر رہے ہیں تو دوسری طرف اسپتالوں میں عوام کو صحت کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔ اس وقت صوبہ پنجاب سمیت پورے ملک میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے جبکہ اس کی وجہ سے 30افراد ابدی نیند سو چکے ہیں۔ پنجاب حکومت صحت افسران کے تبادلے کرکے ڈینگی پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ نااہل ترین حکمران ملک و قوم پر مسلط ہو چکے ہیں۔ ڈینگی کے تدارک کے لیے حکومت کی جانب سے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ محض دکھاوے اور اخباری بیانات سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس وقت اسپتال ڈینگی کے مریضوں سے بھر چکے ہیں۔ محکمہ صحت کی جانب سے روک تھام کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی ہونا چاہیے تھی مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ ڈینگی کے وار سے بچنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا چاہئے تھے مگر حکمران مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کرتے چلے آرہے ہیں۔ جس انداز میں چند برس قبل اس مرض پر قابو پایا گیا تھا، آخر کیا وجہ ہے کہ وہ دوبارہ سر اٹھا چکا ہے؟ انسدادِ ڈینگی کے حوالے سے حکومت کے متعلقہ اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ تمام پارکوں، پبلک مقامات پر ڈینگی اسپرے کیا جائے تو ڈینگی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جیلوں میں بھی ڈینگی اسپرے کرانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ملک کی جیلوں میں گنجائش سے کئی گنا زائد قیدی رکھے جاتے ہیں، اس کی وجہ جیلوں کی ناکافی تعداد بتائی جاتی ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے قریباً 57فیصد زیادہ ہے جس کا نتیجہ زندگی سے بیزاری اور اکتاہٹ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس صورتحال کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ جیل کے عملے اور قیدیوں کے درمیان ماحول کشیدہ اور تشویشناک رہتا ہے۔ امراض میں اضافہ ہوتا ہے۔ اکثر جیلوں میں قیدیوں کی کوٹھریاں یا کوارٹر ہوا دار نہیں۔ گھٹن زدہ ماحول میں زندگی کے دن گزارتے اور سزا پوری کرتے اکثر قیدی ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جبکہ جیلوں میں طبی سہولتوں کا بھی فقدان ہے۔ معاشرے میں جرائم کی شرح کو کم کرنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے، اساتذہ، وکلاء، دانشوروں، اسکالرز اور علمائے دین سمیت سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کیلئے میری تجویز یہ ہے کہ قومی امن کمیٹیاں قائم کی جائیں اور انہیں یونین کونسل سطح پر فعال بنایا جائے جو چھوٹے اور معمولی نوعیت کے جرائم پر مجرم کو سرزنش کر سکیں، خصوصاً بچوں سے سرزد ہونے والے معمولی نوعیت کے ’’جرائم‘‘ کو اصلاح اور بہتری کے پہلو کے پیش نظر ہلکی نوعیت کی سزاؤں کے ساتھ جرم سے نفرت کا درس اور اچھے اور کار آمد شہری بننے کی ترغیب کے پروگرام متعاف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کی جیلوں میں درس قرآن، حدیث اور اصلاح معاشرہ کے لیکچر دینے کا اہتمام کیا جائے، قیدیوں کو زندگی کی خوبصورتیوں سے آگاہ کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ جرم کی دنیا کے اس پار اک اور دنیا بھی آباد ہے، جہاں پیار، محبت، خلوص اور خوشیاں ہیں، اس سلسلے میں حکومتی سطح پر اور پرائیویٹ سیکٹر میں بھی بے حد کام کرنے کی ضرورت ہے۔ قلم فاؤنڈیشن نے پنجاب کی 6جیلوں میں لائبریریاں قائم کرکے اور کتابوں کا بندوبست کرکے اس سلسلے میں اہم قدم اٹھا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی کردار سازی کیلئے بھی پروگرام ترتیب دئیے جا رہے ہیں۔ ممتاز سماجی رہنما جاوید راہی اور فاونڈیشن کے چیئرمین علامہ عبدالستار عاصم سوشل ویلفیئر سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے معمولی جرمانوں میں ملوث کئی قیدیوں کو مختلف جیلوں سے رہا کروا چکے ہیں۔ مخیر حضرت سے درخواست ہے کہ اپنے ضلع کی قریب ترین جیلوں سے کم از کم ایسے ایک ایک قیدی کو رہائی دلوانے کیلئے کوشش کریں، جو معمولی نوعیت کے جرائم میں قید ہیں اور جسمانی سزا مکمل کر چکنے کے بعد جرمانے کی عدم ادائیگی کے باعث اسیر ہیں تاکہ یہ لوگ بھی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ زندگی گزار سکیں۔ جو حضرات قیدیوں کو رہا کروانے کا فریضہ ادا کرنا چاہتے ہوں وہ فاؤنڈیشن سے ان نمبرز 03008422518، 03000515101پر رابطہ کر سکتے ہیں۔