چین کئی اطراف سے پیش قدمی کررہا ہے اور یہ پیش قدمی معاشی ہے تو فوجی بھی۔ طویل المدتی ہے تو قلیل المدتی بھی جو اس نے ایران سے گیس کی فراہمی کا سودا کیا ہوا ہے۔ افغان افواج کی تربیت کا معاملہ زیرغور ہے، ستمبر 2012ء چین کے سلامتی امور کے مشیر ژویونگ کانگ نے کابل کا دورہ کیا، جو 46 سال بعد کسی اہم چینی افسر کا یہ پہلا دورہ تھا۔ پاکستان سے چین کا گہرا تعلق ہے، پاکستان نے اُس کی ایک کمپنی کو گوادر کی اسٹریٹیجک بندرگاہ کا نظام چلانے کا ٹھیکہ دیدیا، چین نے بنگلہ دیش کی چٹاگانگ اور سری لنکا کی پین بین ٹوٹا کے بندرگاہوں کو ترقی دینے میں مدد کی ہے، چین نے برما سے تیل و گیس پائپ لائن بچھانے کا بندوبست کرلیا ہے، اسی طرح سے امریکا کی جنوبی بحر چین میں مداخلت اور اُس کو بحری بیڑوں سے بھرنے اور بحری اڈوں کی بھرمار کے مقابلے میں چین نے دفاعی انتظامات کرلئے ہیں۔ بھارت سے اس نے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے، وہ پاکستان سے دھاگا کی سپلائی کم کرکے بھارت سے زیادہ مال لے رہا ہے۔ اس کے باوجود بھارت پاکستان کے گوادر کی بندرگاہ کو ایک چینی کمپنی کے حوالے کرنے کے فیصلے پر معترض ہے۔ جواباً پاکستان نے اس کے اعتراض کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے پہلے گوادر کی بندرگاہ ایک سنگاپوری کمپنی کو دی کہ وہ اس کا نظام چلائے مطلوبہ نتائج کے حاصل نہ ہونے پر یہ بندرگاہ تجارتی مقاصد کے لئے ایک چینی کمپنی کو دی ہے۔ اس پر اعتراض کرنے کا بھارت کو کوئی حق نہیں ہے۔ اسی طرح چین نے بھی بھارت کے اعتراض پر کہا کہ یہ گوادر کی بندرگاہ ایک تجارتی منصوبہ ہے اور پاکستان اور چین کے درمیان طویل المدتی تعاون کی ایک کڑی ہے اور چین پاکستان کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں پرعزم ہے مگر انڈیا کو گوادر کی بندرگاہ کی اہمیت کا اندازہ ہے کہ وہ آبنائے ہرمز کے منہ پر واقع ہے اور آبنائے ہرمز سے کم اہم نہیں۔ اگر ایران اس آبی گزرگاہ میں خلل ڈال سکتا ہے تو پاکستان بھی ایسا کرسکتا ہے۔ ایران کے ایک مشیر نے پاکستان کے دورے کے موقع پر کہا کہ ایران کو گوادر کی بندرگاہ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ البتہ بھارت کی ایئرپاور اسٹڈیز کے جے رانا دے نے کہا ہے کہ گوادر ایک سنجیدہ پیش رفت ہے کیونکہ یہ بندرگاہ اڈہ کی سہولتوں سے آراستہ ہے۔ بھارت اپنے آپ کو خطہ کی سپرطاقت سمجھنے لگا ہے اور پاکستان اور چین کو دبانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ۔ جہاں چین کے ترجمان ہونگ لی نے 7 فروری 2013ء کو یہ واضح کیا کہ چین پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے جو کچھ کرسکتا ہے وہ کرنے کیلئے دستیاب ہے۔ اس پر بھارتی وزیر دفاع انتھونی نے کہا کہ بھارت اپنی افواج کو جدید ترین اسلحہ سے لیس کرنے کیلئے ہرممکن کوشش کررہا ہے تاکہ وہ چین کے جدید اسلحہ کا مقابلہ کرسکے۔ اس طرح بھارت کو دفاعی بجٹ بڑھتا ہی جائیگا۔ حال ہی میں بھارت نے اسرائیل و امریکا سے 12 ڈرون طیارے حاصل کرنے کا معاہدہ کیا ہے جو کشمیر میں تعینات کئے جائیں گے، جس کی لاگت تقریباً 10 بلین ڈالرز ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اس نے چین کی سرحد پر 89 ہزار فوجی اور 400 افسران تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے انڈیا نے ستمبر 2012میں 40ہزار افواج چینی سرحد پر تعنیات کی تھی، اب نہ جانے 89ہزار ہے کی تعداد 40ہزار کے علاوہ ہے یا اس کو ملاکر ۔ یہ تعنیاتی اس مقصد کے ساتھ کی گئی ہے کہ اگر چین کی طرف سے پاکستانی کارگل قسم کی مہم جوئی کی گئی تو اُس کا جواب دیا جاسکے۔ کارگل آپریشن میں بھارت سوئے ہوئے تھے مگر پھر پاکستان اُس مہم جوئی کو برقرار نہیں رکھ سکا اور نہ ہی اپنی ایئرفورس کو استعمال کرسکا اور نہ ہی ایٹمی ڈراوا کسی کام آیا بلکہ ایٹمی ڈراوا کا اِس مہم جوئی میں اگر خاتمہ نہیں تو ڈر کم ضرور ہوا۔ چینی سرحد پر بھارتی افواج کی ایک لاکھ کے قریب تعیناتی بھارت کو کافی مہنگی پڑے گی اس کا تخمینہ تقریباً 65 ہزار کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ چین نے اس پر کوئی ردعمل کا اظہار نہیں کیا مگر اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ چین 90 ہزار سے دگنی یا تگنی تعداد میں بھارتی افواج کے مقابلے میں بھارت ۔چین میک موہن سرحد پر لے آئے گا۔ وہ شاید اس پر اکتفا نہ کرے بلکہ اپنے جہاز اور اپنے میزائل بھی بھارتی سرحد کے قریب حرکت میں لے آئے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔ میں 1999ء میں چین کی سلور جوبلی کے موقع پر بطور صحافیوں کی وفد کی قیادت کررہا تھا تو کئی اہم چینی رہنماوٴں سے ملاقات ہوئی تو یہ اس بات کا اندازہ ہوا کہ چینی ہم سے کہیں زیادہ بھارت کے مخالف ہیں اور دانت پیس کر کہتے تھے کہ بھارت نے کوئی غلطی کی تو ہم اس سے کہیں زیادہ سزا دیں گے جتنی کہ 1960ء میں نیفا کے محاذ پر دی تھی۔ ہم پاکستان، بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی کو درست نہیں سمجھتے مگر مجبوری یہ ہے کہ بھارت نہ صرف پاکستان کو گھیرنے میں لگا ہوا ہے بلکہ چین کے گرد بھی گھیرا ڈال رہا ہے۔ ایران، بھارت کے ہاتھ نہیں آسکتا۔ البتہ اس نے بحری ناکہ بندی کا ارادہ باندھا ہوا ہے۔ چین کیخلاف منگولیا، تاجکستان، ویت نام اور دیگر ممالک سے معاہدہ کرچکا ہے۔ جاپان، فلپائن، سنگاپور اور دیگر ممالک سے معاملات طے کررہا ہے جس سے کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ جو بھارت کیلئے اچھا نہیں ہے کہ وہ امریکا کی حمایت میں اپنے آپ کو اتنا کھینچے کہ اس کی چمک دمک کا بھرم ٹوٹ جائے مگر کیا کیا جاسکتا ہے اگر بھارت خود اپنا پیر کلہاڑی پر مارنا چاہے تو اُسے کون روک سکتا ہے۔