• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’روہڑی‘‘ ٹھٹھہ اور سہیون کے بعد سندھ کا تیسرا قدیم شہر

سندھ کا قدیمی اور خوبصورت شہر روہڑی پاکستان کے دیگر شہروں میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ شہر کے مغرب میں باغات ، جنوب میں پہاڑیاں، شمال میں دریائے سندھ جبکہ مشرق میں صحرا۔ سکھر شہر کا فاصلہ اس قصبے صرف 5 کلو ميٹرہے اور دونوں شہروں کو دریائے سندھ ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔

روہڑی میں جدید و قدیم تہذیب و تمدن کا حسین امتزاج نظر آتا ہے، جو یہاں سیر و تفریح کی غرض سے آنے والے افراد کے ذہنوں پر سحر طاری کردیتا ہے۔اگر یہاں ہزاروں سال پرانی تہذیب کے آثارکھنڈرات، قدیم عمارتوں، مقابر یا محلات کی صورت میں موجود ہیں تو نئے تقاضوں کے مطابق قدیم عمارتوں کو تزئین و آرئش و مرمت کے بعد جدید طرز کی تعمیرات میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس سرزمین کے بارے میں مشہور کہ ہے اس کی خاک میں تقریباً سوا لاکھ اولیاءو صوفیائے کرام، بزرگان دین کی قبریں و مزارات ہیں جس کے سبب اس شہر کو روہڑی شریف کا تام بھی دیا گیا ہے۔اس کے روہڑی شریف کے لقب کی ایک اور وجہ جو بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ 935 ہجری کے بعد بکھر کے نام سے جانے والے مقام کو آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ کے موئے مبارک کے حاصل ہونے کا شرف حاصل ہواجس کے بعد اسے روہڑی شریف کا نام دیا گیا۔ 

پوری دنیا میں خاتم النبینؐ کی ریش مبارکہ کے ڈھائی موئے مبارک موجود ہیں ،جن میں سے ایک روہڑی شریف میں بھی ہے ۔یہاں دریائے سندھ کے کنارے واقع بنام بال مبارک کی یہ خوبصورتی کا شاہکار مسجد چار سو سال قبل مغل شہنشاہ اکبر نے بنائی تھی جہاں ذو الحجہ کی یکم سے دس تاریخ جب کہ جمعۃ المبارک کو رسول پاک ؐ کےشیدائی، موئے مبارک کی زیارت کرنے دور دراز علاقوں سے آتے ہیں ۔ 952 ہجری میں اس کی زیارت کا سلسلہ شروع ہوا تھا، اکبر بادشاہ ،ایران کےبادشاہ نادر شاہ، اورنگزیب عالمگیر ، شاہجہاں سمیت دیگر تاریخی شخصیات موئے مبارک کی زیارت کا شرف حاصل کرچکی ہیں۔

روہڑی شہر کو اروڑ راجکمار ،’’ دھج رور کمار‘‘ نے5ویں صدی قبل مسیح میں تعمیر کرایا تھاجو اسی کے نام سے موسوم ہونے کے بعدا روڑ کہلایا۔اس شہر کی قدامت کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ ارتقائے انسانی اور دور ہجری کے آثار یہاں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ 962ء میں آنے والے زلزلے نے شہر کو تباہ و برباد کردیا ۔

اس قدرتی آفت کی وجہ سے جغرافیائی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں،دریائے سندھ کی گزرگاہ بھی تبدیل ہوگئی اوریہ اپنے پہلے مقام الور سےجسے اب اروڑ کہا جاتا ہے، اپنی گزرگاہ تبدیل کرتے ہوئے موجودہ بکھر جزیرہ سے بہنا شروع ہوگیا۔ 

دریائے سندھ کے رخ بدلنے کی وجہ سے اروڑ کے رہنے والوں نے نقل مکانی کرکے بکھر جزیرہ کے گرد ونواح میں رہائش اختیار کی جس کے باعث یہ شہر آباد ہوا۔ تاریخی حوالوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ روہڑی کو پہلے ’’لوہری‘‘ یا ’’لوہر کوٹ‘‘ کہا جاتا تھا، روہڑی کا موجودہ نام دراصل ’’روڑی‘‘ سنسکرت بھاشا کا لفظ ہے، جس کا مطلب چھوٹا پتھر ، مٹی کا ٹیلہ، یا ’’پہاڑی‘‘ ہے۔ موسم کے اعتبار سے روہڑی شہرمیں سخت گرمی پڑتی ہے جب کہ موسم سرما انتہائی سرد ہوتا ہے۔ 

یہ شہر تقریبًا دس مربع کلومیٹراراضی کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ روہڑی شہر کے آباد ہونے کے حوالے سے سندھ گزٹ کے مطابق ’’روہڑی‘‘ شہر کو سید رکن الدین نے 996 ہجری میں تعمیر کرایا تھا لیکن بعد کی تحقیق کے مطابق اس کا وجود قبل مسیح سے ہے اور شہر قدامت میں سیہون ، ٹھٹھہ کا ہم عصر ہے۔

مذکورہ تینوں شہر اپنے دور میں علم و ادب اور تہذیب وتمدن کے اہم مراکز تھے۔ روہڑی شہر ٹھٹھہ، شکارپور اور سیہون شہر سےگہری مماثلت رکھتا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سےاس شہر کی بعض خصوصیات کی وجہ سے منفرد پہچان ہے۔ 

شہرکی مغربی سمت لہلہاتے باغات ، جنوب میں چھوٹی بڑی پہاڑیاں، شمال میں عظیم دریائے سندھ جبکہ مشرقی جانب ریگستانی علاقہ ہے۔دریائے سندھ کے کنارے ہونے کی وجہ سے دن میں اس شہر کا موسم جتنا بھی گرم ہو لیکن یہاں کی راتیں نہایت حسین ہوتی ہیں۔ خنک ہوائیں اور ٹھنڈی فضا ،جسم و جان میں تازگی اورعجب سرشاری کا عالم طاری کردیتی ہے۔ شہر کا طرز تعمیر زیادہ تر قدیم طرز پر مبنی ہے۔ 

شہرکی گلیاں ڈھلوان کی صورت میں اوپر اور نیچے کی طرف بنی ہوئی ہیں۔ اگر ایک گلی میں چلیں تو کبھی نشیب میں اترنا پڑتا ہے اور کبھی تھوڑاسا آگے چلنے کے بعدبلندی کی جانب سفر کرنا پڑتا ہے۔ اکثر مقامات پر سیڑھیاں بھی بنی ہوئی ہیں۔بلندی کی طرف چلنے کی صورت میں شہر کی اکثر عمارتیں انتہائی نچلی سطح پر نظر آتی ہیں۔ 

پورے شہرمیں کوئی بھی جدید طرز کی عمارت نہیں البتہ کچھ ایسی عمارتوں کی جدید طرز پر مرمت ، تزئین و آرائش کے علاوہ جدید سازوسامان سے سجاوٹ کی گئی ہے جبکہ یہاں کے شہریوں کا رہن سہن جدید دورکی سہولتوں سے آراستہ ہے۔ 

اکثر عمارتیں ،کچی اینٹوں اور گارے سے بنی ہوئی ہیں جو مضبوط اور آپس میں جڑی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ تین تین منزلہ عمارات آپس میں ایسے جڑی ہوئی ہیں کہ اگر خدانخواستہ کسی ایک عمارت کو نقصان پہنچے تو پوری قطارکے اس سے متاثر ہونے کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔شہر میں نکاسی آب کا نظام قدیم دور سے مطابقت رکھتا ہے، موہنجودڑو کی طرز پر نالیاں بنائی گئی ہیں، اور ہر گلی میں فرش بندی کی گئی ہے۔

اس شہر کے باسیوں کواس کے آباد ہونے کے بعد سے پارک کی صورت میں تفریحی سہولت میسر نہیں تھی لیکن کچھ عرصے قبل یہاں کی میونسپل کارپوریشن نے ایک پارک تعمیرکرایا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی سڑک نیشنل ہائی وے جسے جی ٹی روڈ بھی کہا جاتا ہے شہر کے ساتھ سے گزرتی ہے۔ 

اس شاہراہ پر کراچی کے علاوہ پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے کسی بھی شہر کی سمت جانے والی مسافر بسیں، کاریں اور دیگر گاڑیاں گزرتی ہیں جب کہ اندرون شہر میں سفر کے لیے ٹانگہ، رکشہ اور سوزوکی پک اپ چلتی ہیں۔ 

سیاحت کے اعتبار سے اس شہر کو دیکھا جائے تو دریا کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے سیر و تفریح کے لئے یہ ایک بہترین مقام سمجھا جاتا ہے۔ دریائے سندھ میں موجود تین جزائرروڑی شہر کے انتہائی قریب واقع ہیں۔سکھر اور روہڑی ایک دوسرے کے بالمقابل واقع ہیں لیکن ان کے درمیان دریائے سندھ حائل ہے۔ 

دونوں شہر کو زمینی راستے سے ملانے کے لیے 1888ء میں برٹش حکومت نے لینس ڈائون پل تعمیر کرایا تھا ۔یہ پل دنیا کے چند خوبصورت ترین پلوں میں شمار ہوتا ہے اور آج بھی فن تعمیر کا عظیم شاہکار کہلاتا ہے۔ اس پل کے ساتھ ہی ریلوے برج ہے جسے 1962ء میں مرحوم صدرجنرل ایوب خان نے تعمیر کروایا تھا جو انہی کے نام پر ’’ایوب برج‘‘ کے نام سے معروف ہے۔

روہڑی شہر سے 10کلو میٹر کے فاصلے پر جنوب میں سندھ کی قدیم تخت گاہ اروڑ کے کھنڈرات واقع ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جسے محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا اور وہاں کا مندر منہدم کروا کر ایک مسجد تعمیر کرائی گئی تھی جس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ 

بیرون شہر سےآنے والے سیاح اروڑ سمیت دیگر قدیم علاقوں کی سیر و تفریح کو لازمی سمجھتے ہیں اور سکھر و روہڑی کے باشندے بھی اپنے گھر آنے والے مہمانوں اور دوست و احباب کو ان مقامات کی سیر کرانا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ 

اروڑ میں کالکا دیوی کا ایک غار بھی ہے ، جو ہندوؤں کے لیے متبرک مقام ہے، جہاں ہر سال میلے کا انعقادہوتاہے۔ اس مندر سے متصل ایک مسجد و مدرسہ بھی موجود ہے جہاں بچوں کو دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس مسجد، مدرسہ و خانقاہ کے بانی فقیر حافظ محمد عارف خلیفہ مجاز حضرت لونگ فقیر تھے اور حضرت لونگ فقیر سندھ کے نامور صوفی بزرگ اور شاعر حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی رحمۃ اللہ کے خلیفہ مجاز تھے۔

روہڑی شہر میں سات سہلیوں کا مزار جو ’’ستین جو آستان‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے، پاکستان بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ستین جو آستان، میر ابولقاسم نمکین نے تعمیر کرایا تھا، جو اپنی طرز تعمیر کے سبب انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی مقام پر میر ابو القاسم اکثر چاندنی راتوں میں شعر وسخن کی محفلیں منعقد کرواتے تھے، اور ان کے انتقال کے بعد ان کی تدفین بھی اسی مقام پر ہوئی تھی۔

روہڑی شہر کو اگر قدامت اور جدت کی آمیزش سے بننے والا شہر دلفریب کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کیونکہ یہ شہر بیک وقت ماضی کے جھرونکوں میں لے جاتا ہے تو اگلے ہی پل جدت کی بھول بھلیوں میں گم کردیتا ہے، یہ اور بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدیم دور کی نشانیاں وقت کے گرد و غبار میں دبتی جارہی ہیں مگر ابھی مکمل طور پر معدوم نہیں ہو ئی ہیں۔

تازہ ترین