سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دَو رمیں جب یہ بات سامنے آئی کہ برانڈڈ ادویہ پر کئی گُنا زائد قیمت وصو ل کی جا رہی ہے، تووزیرِ صحت ،شیخ رشید مرحوم نے ملٹی نیشنل کمپنیز کی بالا دستی ختم کرنے کے لیے کیمیائی ناموں (جینرک ) پر ادویہ کی ایک اسکیم کا اعلان کیا۔اور یہ اس لیے بھی ہوا کہ زائد قیمت وصول کرنے پر اخبارات میں شدید ردّ ِ عمل سامنے آیا اور کئی دانش وَروں نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں وزیرِ صحت کے پیش کردہ اعداد و شمارسے اندازہ ہوا کہ بیرونی کمپنیز بعض ادویہ پر 16سے 33گُنا زائد قیمتیں وصول کر رہی تھیں۔ لہٰذا بھٹو حکومت نے ایک جینرک اسکیم کا اعلان کیا۔
لیکن بات یہ ہے کہ پورے بوسیدہ نظام کو بدلے بغیر کسی ایک شعبےسے سامراجی تسلّط ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ بقول ڈاکٹر فیروز احمد، ’’سامراج کے سمندر میں سامراج دشمنی کا جزیرہ نہیں پیدا کیا جا سکتا‘‘۔ چناں چہ ملٹی نیشنل کمپنیز اور ان کےحواریوں نے اپنے مفاد کے تحفّظ کے لیےفوری اقدامات شروع کر دیئے ۔
جینرک اسکیم کے خلاف منظّم پروپیگنڈا کیا گیا ، ایک مہم چلائی گئی۔ یہاں تک کےامریکا نے بھی اس معاملے میںمداخلت کی اور بالآخر غیر مُلکی کمپنیزجیت گئیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیز کی ادویہ کی اسی اجارہ داری کی وجہ سے کئی ڈاکٹرز ذاتی فائدے حاصل کرتے ہیں۔ انہیں مظلوم و معصوم عوام پر پڑتا بوجھ، اُن کی مشکلات ،پریشانیوں کا کوئی احساس نہیں۔
وہ اُن مخصوص کمپنیزکی ادویہ ہی تجویز کرتے ہیں، جن سے اُن کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں اور بے چارے مریض چار و نا چار ڈاکٹرز کی تجویز کردہ منہگی ادویہ خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ دَر حقیقت یہ استحصال، عالمی مالیاتی اداروں کا ایک اہم حصّہ ہے۔ان ملٹی نیشنل ، ادویہ ساز کمپنیز نے پاکستان سمیت تیسری دنیا میں اندھیر نگری مچا رکھا ہے۔
پاکستان ٹائمزنے اپنے23ستمبر 1970ء کے شمارے میں غیر مُلکی ادویہ ساز کمپنیز کی مَن مانی سے متعلق ایک خبر لگائی کہ ’’پاکستان میںفروخت ہونے والی ڈیکسا میتھسون (دوا) پرمنافعے کی شرح 3500فی صد زاید رکھی گئی ہے۔‘‘ اس تناظر میں ڈاکٹر فیروز احمد نے اپنی کتاب 1971ء کی اپنی کتاب’’سامراج اور پاکستان ‘‘میں ایک جگہ لکھا، ’’جو گولی امریکا میں ایک روپےکی ہے، وہ پاکستان میں 79روپےکی ملتی ہے‘‘ کس قدر بے حِسی اور غفلت ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے آج تک اس تاریخی استحصال کامحاسبہ ہی نہیں کیا،تب ہی یہ استحصال آج تک جاری و ساری ہے، بلکہ وقت کے ساتھ اس لُوٹ کھسوٹ میں کئی گُنا اضافہ ہوچکا ہے۔
امریکی حکومت جس طرح اپنی دوا ساز کمپنیزکی مدد کرتی ہے اور پاکستانی عوام کو جس طرح منہگی ادویہ خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے، وہ ایک داستانِ الم ہے۔ عصرِ حاضر میں دیکھیں تو جینرک اور برانڈڈ ادویہ کی خرید وفروخت کے ضمن میں جو امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، وہ قابلِ غورہے۔ پیٹینٹ پروٹیکشن کے تحت ، دوا سازی کے شعبے میں اجارہ داریوں کو اجازت دی گئی ہےتا کہ غیر مُلکی کمپنیز ٹیکنالوجی اور سائنسی دریافتوں کی آڑ میں کمرشل استحصال کریں اور منافع خوری کر کےڈالرز کی صُورت اپنے مُلکوںمیں منافع بھیج سکیں۔
ویسے یہ ہمارے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ مُلک میں گاڑیاں لِیز پر دی جاتی ہیں، بینکس کی نج کاری کر دی گئی ہے، کریڈٹ کارڈز متوسط طبقے کے لیے عذاب بن چُکےہیں کہ جب تک اصل زَر ادا نہ ہو، 36فی صد سود دینا ضروری ہے۔جعلی دانش وَر مُلک لُوٹنے والےٹولوں ، ٹیکس چوروں کے ساتھ ہیں ،تو ایسے میں روپے کی قدر کم اور غریب کی زندگی وبال ہی ہو گی۔
ایک طبقہ سود سے خُوب منافع کما رہاہے ، تودوسرا ٹولہ اسٹاک مارکیٹ میں سٹّے بازی سے کماتا ہے ، جب کہ تیسرا ٹولہ بلیک منی کو سفید کرنے کے لیے کیسینوز میں جوا کھیلتا ہےکہ کیسینو میں کمائی دولت سفید دھن میں شمار ہوتی ہے۔ اسی لیے تودنیا میں ارتکازِ دولت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ 12 سو سرمایہ داروں کے پاس آدھی دنیا سے زائد دولت ہے۔
تو کیا اس طرح دنیا چل سکتی ہے… ؟ پھر اسلحے کی ایک خوف نا ک دوڑ لگی ہے، اس میں تیسری دنیا کے ممالک روندے ہی جائیں گے۔ در حقیقت ،سامراج کی مزاحمت اور جدّوجہد کے لیے ایک عالمی تحریک کی ضرورت ہے۔
ایک غیر مُلکی آن لائن اخبار کے مطابق ایک مشہور غیر مُلکی فارما کمپنی کےشعبۂ مارکیٹنگ کا بجٹ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے بجٹ سے کہیں زیادہ ہے ۔ مقامی سطح پر جب ادویہ کی قیمتوں کا تعیّن کیا جاتا ہے، تو وہ برانڈڈ سے بہت مختلف اورا متیازی نوعیت کا ہوتا ہے۔
ان ادویہ کی پرچون قیمت زیادہ رکھی جاتی ہے، جب کہ وہ مقامی کمپنیزجو خام مال امپورٹ کرتی ہیں ، ان کے ساتھ نارواسلوک رکھا جاتاہے۔ویسے یہ ڈرگ پالیسی 2018ء اور آئین کے آرٹیکلز 2A، 4، 18،24اور A25کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی بالادستی مقامی کمپنیزکے حق میں نہیں ۔
اس وقت پاکستان معاشی طور پر مشکلات میں گھِرا ہے ،دوا سازی کی بہت سی مقامی صنعتیں بند ہو رہی ہیں، لیکن کوئی نئی مقامی کمپنی اگر سرمایہ کاری کرنا چاہے تو ڈریپ کا ’’سرخ فیتہ‘‘ تاخیر کر دیتا ہے، اس لیےنئے پلانٹس تاخیری حربوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان اور صوبائی حکومتوں کے وزرا ئےصحت عوام کی صحت کا کچھ توخیال کریں۔ صحت کا شعبہ عرصۂ دراز سے بیمار ہے۔پڑوسی مُلک بھارت ہربل اور دوسری اقسام کی ادویہ سازی میں ہم سےبہت آگے نکل چکا ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ مقامی کمپنیزڈریپ سے منظوری لینے کے لیے مہینوں انتظار میں رہتی ہیں۔
بھارت 35ارب ڈالرز کی فارما سوٹیکلز برآمد کرتا ہے ،جب کہ پاکستان صرف 16کروڑ کی اوراگراس سمت دھیان نہ دیا گیا تو یہ تناسب مزید بگڑ سکتا ہے۔ بیوروکریسی پہلے ہی پاکستان کو کافی نقصان پہنچا چکی ہےاوراگر ڈریپ اتھارٹی کا یہی رویہ رہا تو لائف سیونگ ادویہ کی بھی قلّت ہوجائے گی۔ بیرونی سرمایہ کار، جوائنٹ وینچر میں تاخیر کے غلام نہیں ۔وہ واپس چلے جاتے ہیں اور پاکستان کی مقامی صنعت خسارے میں ڈوب جاتی ہے ۔
دنیا میں آن لائن فارمیسی کی سہولتیں بھی دی جارہی ہیں۔ گلوبلائزڈ تناظر میں اِس وقت آن لائن 50ہزار فارمسیز ،ہزاروں مریضوں کی خدمت کررہی ہیں، مگر پاکستان کے لیے یہ ایک نیا تصوّر ہے۔ اب یہ صوبائی حکومتوں پر ہے کہ وہ آن لائن سہولت کی دستاویزی کارروائی کتنے عرصے میں مکمل کرتی ہیں کہ یہ ایک بہترین سہولت ہے۔ اس کے لیےضابطہ کاری کو کس طرح صوبائی اسمبلیوں میں منظورکرتی ہے، اس سہولت سے بزرگ ، معذور یا ایسے افراد جو کسی وجہ سے گھر سے باہر نہیں جا سکتے ،گھر بیٹھے ہی فارمیسی سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
آپ حکومتی سنجیدگی کا اندازہ تو اس بات سے لگا ئیے کہ سرکاری سطح پر اب تک ادویہ کی اسمگلنگ کی روک تھام نہیں کی جاسکی ۔حالاں کہ اگر موجودہ حکومت دو نمبر اور اسمگل شدہ ادویہ ہی سے چھٹکارا پا لے تومُلکی معیشت پنجوں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔
ادویہ کی لائف بہت کم ہوتی ہے،ان کو خاص درجۂ حرارت پر رکھا جاتا ہےاور باقاعدگی سے ان کی جانچ پڑتال ضروری ہے ۔ دوسری جانب برانڈڈاور جینرک ادویہ کی قیمتوں میں بہت فرق پایا جاتا ہے ۔اندازہ کیجیے کہ A2T اور 3Tc دونوںادویہ ہی HIV میں استعمال ہوتی ہیں، جو امریکا میں 18ڈالر زروزانہ کے حساب سے فروخت ہوتی ہیں۔
یوگنڈا میں اس کی قیمت 7ڈالرز روزانہ کے حساب سے رکھی ہے،جب کہ برازیل میںیہ دوا 1.50ڈالر کی فروخت ہوتی ہےاور اگر بات کی جائے وطنِ عزیز کی، تویہاںصحت کاشعبہ اس قدر ابتری کا شکار ہے کہ غریب اسپتالوں کے چکّر لگاتے لگاتے ہی مر جاتا ہے، اُس کے بچّے بہتر تعلیم حاصل کرپاتے ہیں اور نہ روزگار۔
ویسے بھی جب بنیادی ضروریاتِ زندگی ہی غریب کی پہنچ سے باہر ہوں، تو باقی معاملات پر کیا افسوس کریں۔جب تک یہ طبقاتی نظام نہیں بدلےگا، اس مُلک کی حالت نہیں سُدھر سکتی۔اسی لیے کارل مارکس نے کہا تھا کہ ’’دنیا کو بدلنا پڑے گا‘‘،لیکن اس وقت آثار کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں۔