(عکّاسی: اسرائیل انصاری)
گوادر، خوابوں کی زمین…مگر اب خواب، تعبیر کا رُوپ دھارنے کو ہیں۔ وہاں سے مسلسل خوش کُن اور اُمید افزا خبریں سُننے میں آ رہی ہیں، تو ہم نے سوچا، کیوں نہ وہاں سرگرم رئیل اسٹیٹ کے کسی معتبر نام سے بات کی جائے تاکہ قارئین کو علم ہوسکے کہ گوادر میں ہو کیا رہا ہے…؟؟ سو، معروف بلڈر، سَن بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کے منیجنگ ڈائریکٹر اور اسٹار مارکیٹنگ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ،محمود احمد خان کے پاس جا پہنچے۔ وہ گزشتہ کئی برسوں سے گوادر میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور وہاں کے معاملات کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔
نیز، اُن کا شمار کراچی کی انتہائی متحرّک شخصیات میں ہوتا ہے۔ کئی برس تک آرٹس کاؤنسل آف پاکستان،کراچی کے مختلف عُہدوں پر رہے۔ شہر میں منعقد ہونے والے عالمی مشاعروں کے رُوحِ رواں ہیں۔ ایک اسپتال قائم کیا ہے، جہاں مفت علاج کیا جاتا ہے۔ تو لیجیے، محمود احمد خان سے ہونے والی خصوصی نشست کا احوال ملاحظہ فرمائیں۔
س: اپنے خاندان، تعلیم اور کیرئیر کے بارے میں کچھ بتائیے؟
ج:جامعہ ملّیہ سے میٹرک، ایس ایم کامرس کالج سے بی کام اور پھر امریکا سے ایم بی اے کیا۔ عملی زندگی کا آغاز بینک کی ملازمت سے کیا اور ایک بینک میں وائس پریذیڈنٹ رہا۔2006ء سے مُلک کی سب سے بڑی رئیل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنی، اسٹار مارکیٹنگ سے وابستہ ہوں۔ شہرِ قائد میں ہونے والے عالمی مشاعروں کا گزشتہ 26برسوں سے آرگنائزر ہوں۔
آرٹس کاؤنسل کراچی کا نائب صدر رہا۔فلاحی سرگرمیوں میں بھی حصّہ لیتا ہوں۔ ریڑھی گوٹھ، کورنگی میں شاعر اور سماجی کارکن، مظہر ہانی کے ساتھ مل کر ایک فلاحی اسپتال چلا رہا ہوں ۔ نیز، وہاں دینی تعلیم کے لیے ایک مدرسہ بھی قائم کیا ہے۔ اور یاد رہے، ہم ان تمام فلاحی کاموں کے لیے کسی سے نقد رقم نہیں لیتے، تاہم ضرورت کی چیزیں عطیہ کی جاسکتی ہیں، جیسے تعمیراتی سامان وغیرہ۔
س: ان دِنوں گوادر ماسٹر پلان کا بہت چرچا ہے۔ کیا ہے یہ؟
ج: بلڈرز اور دیگر سرمایہ کار پچھلے آٹھ، دس برسوں سے ایک جامع ماسٹر پلان کا انتظار کر رہے تھے تاکہ ترقّیاتی کام آگے بڑھ سکیں۔اب حکومت نے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے گوادر ماسٹر پلان متعارف کروایا ہے، جو تین حصّوں پر مشتمل ہے۔
اس پلان کے تحت شہر کو’’ اسمارٹ پورٹ سٹی‘‘ بنایا جا رہا ہے۔ چائنیز، ڈائریکٹر جنرل، جی ڈی اے، شاہ زیب خان کاکڑ اور اُن کی ٹیم کے ارکان نادر صاحب اور شاہد صاحب نے اس ماسٹر پلان پر بہت محنت کی ہے۔
اس حوالے سے سال بھر اسلام آباد، کوئٹہ اور گوادر میں مسلسل اجلاس ہوتے رہے۔24 اگست کو گوادر میں کانفرنس ہوئی، وزیرِ اعلیٰ چھے، سات گھنٹے وہاں بیٹھے رہے اور ماسٹر پلان کے ایک ایک نکتے پر غور و خوض کیا۔ ہم سمیت بلڈرز کے نمائندے بھی وہاں موجود تھے اور سب کی مشاورت سے پلان کو حتمی شکل دی گئی۔کس علاقے میں کتنی منزلہ عمارتیں ہوں گی؟ کمرشل ایریاز کہاں ہوں گے؟ سب کچھ طے کر دیا گیا ہے۔
صنعتی زون کی الگ سے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ تعلیمی اداروں اور گرین بیلٹس کے لیے سائٹس مختص کی گئی ہیں۔ دراصل، اس ماسٹر پلان میں عوام کے تصوّرات کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماسٹر پلان آنے کے بعد حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔
س: مگر اس پر تنقید بھی تو ہو رہی ہے؟
ج: بعض قوم پرستوں کے روزگار کے مواقع اور آبادکاری کے حوالے سے کچھ خدشات تھے، جو وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، جام کمال خان نے دُور کر دیئے ہیں۔
س: گوادر کی ترقّی کا بہت شہرہ ہے۔ زمینی حقائق کیا ہیں؟
ج: بہت کم افراد کو علم ہوگا کہ گوادر پورٹ نے باقاعدہ کام شروع بھی کردیا ہے اور وہاں ہر ہفتے ایک جہاز لنگر انداز ہو رہا ہے۔نیز، خطّے کی کئی بندر گاہیں گوادر سے منسلک ہو چُکی ہیں۔ دوسری طرف، دنیا بھر سے تاجر وہاں آ رہے ہیں۔ چائنیز نے بزنس سینٹر بنایا ہے،جس میں کانفرنس ہالز ہیں، ہوٹلنگ کی سہولت ہے، اس میں اپارٹمنٹس ہیں۔
شہر میں بینکس کُھل چُکے ہیں۔ جی ڈی اے نے سڑکوں کا جال بچھانا شرع کر دیا ہے اور دیگر منصوبوں پر بھی جنگی بنیادوں پر کام ہو رہا ہے۔ چائنیز نے ایکسپریس وے پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔ ایکسپو کے علاوہ کئی عالمی کانفرنسز وہاں ہو چُکی ہیں۔
پچھلے دنوں چیئرمین سینیٹ نے گوادر میں بڑی کانفرنس کی، جس میں پوری دُنیا سے لوگ بلائے گئے۔ انٹر نیشنل ایئر پورٹ بھی بن رہا ہے۔ چائنیز کا کہنا ہے وہ دو برس سے بھی کم عرصے میں اُسے مکمل کرلیں گے۔
میٹھے پانی کا بڑا مسئلہ تھا، لیکن اب پسنی سے پائپ لائن کے ذریعے یومیہ 75گیلن پانی گوادر کو مہیا کیا جا رہا ہے۔ اِس وقت گوادر کی آبادی تین لاکھ کے قریب پہنچ چُکی ہے۔ تاہم، بدقسمتی سے عوام ان ترقّیاتی منصوبوں سے لاعلم ہیں۔ اُنہیں پتا ہی نہیں کہ گوادر کہاں سے کہاں پہنچ چُکا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں، اگلے تین برسوں میں ایک نیا گوادر وجود میں آ چُکا ہوگا۔
س: کیا ترقّی کے ثمرات مقامی افراد تک بھی پہنچ پائیں گے؟
ج: ڈی جی، جی ڈی اے شاہ زیب خان نے پچھلے دنوں مقامی افراد کی ایک خصوصی کانفرنس بلوائی، جس میں مجھ سمیت کئی بلڈرز بھی مدعو تھے۔ کوئی چھے گھنٹے بات چیت جاری رہی اور مقامی لوگوں سے ہر بات پر کُھل کے ڈسکشن ہوئی۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں روزگار اور ترقّی کے مواقع میں مقامی افراد کو کس قدر زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔
اُنھیں ہنر مند بنانے کے لیے انسٹی ٹیوٹس کھولے گئے ہیں۔ اسکولز بنائے گئے ہیں، چائنیز زبان سِکھائی جا رہی ہے۔نیز، وزیرِ اعظم، عمران خان کے اس اعلان سے بھی کہ’’ 50لاکھ گھروں کی تعمیر کا آغاز ماہی گیروں سے کیا جائے گا‘‘، گوادر کے لوگ بہت خوش ہیں۔
س: یہ بتائیے، ہم گوادر میں کیوں پلاٹ خریدیں؟
ج: اس لیے کہ گوادر سی پیک کے تحت خطّے کا پہلا’’ اسمارٹ پورٹ سٹی‘‘ بننے جا رہا ہے۔اس سے روزگار اور ترقّی کے نئے دروازے کُھلیں گے، یہ چند برسوں میں معاشی حب بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اب روس، تُرکی اور سعودی عرب بھی سی پیک کا حصّہ بننا چاہتے ہیں۔
وہاں ایک وقت میں 120 جہاز لنگرانداز ہوسکتے ہیں، یہ سہولت کسی اور بندرگاہ کو حاصل نہیں۔ قریبی چاہ بہار ایرانی بندرگاہ میں بھی ایک وقت میں صرف 26جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔
س: گوادر میں پراپرٹی خریدتے ہوئے کن امور کو مدّ ِنظر رکھنا چاہیے؟
ج:خریدار کو سب سے پہلے بلڈر، اُس کی عمومی شہرت اور سابقہ اسکیمز ضرور دیکھنی چاہئیں۔ زمین اور متعلقہ اداروں کے اجازت نامے بھی دیکھیں۔ لوگ غیر منظور شدہ منصوبوں میں پلاٹ لے لیتے ہیں اور بعد میں پریشان ہوتے ہیں۔
گوادر میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ اگر کسی کے بلڈر کے پاس 100ایکڑ زمین ہے، تو وہ اس میں سے 70ایکڑ فروخت کر سکتا ہے، باقی 30ایکڑ جی ڈی اے کے پاس ہو گی تاکہ اگر بلڈر وقت پر منصوبہ مکمل نہ کر سکے، تو وہ زمین بیچ کر تعمیر مکمل کرواسکے۔ یہ سہولت یا قانون کہیں اور نہیں ہے۔
س: کیا وہاں عوام کی سرمایہ کاری محفوظ ہے؟
ج:جی بالکل۔ جن افراد نے رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی، وہ محفوظ ہے۔ قبضے وغیرہ کی کوئی کہانی نہیں، البتہ بعض مقامات پر زمین کی ملکیت کے حوالے سے کچھ قانونی پیچیدگیاں ضرور سامنے آئی ہیں، لیکن لینڈ ڈیپارٹمنٹ ان مسائل کو بھی حل کر رہا ہے۔
وزیراعلیٰ نے واضح حکم دیا ہے کہ ون ونڈو کے تحت لوگوں کے مسائل حل کیے جائیں۔ اس سے پہلے زبانی باتیں ہوتی تھیں، اب عملی کام ہو رہا ہے۔
س: ویسے رئیل اسٹیٹ کی مارکیٹنگ کے حوالے سے عوام کو بہت سی شکایات ہیں؟
ج:جی ایسا ہے، مگر ہم کسی منصوبے پر کام کرنے سے پہلے اچھی طرح جانچ پڑتال کرتے ہیں کہ کیا بلڈر کیے گئے وعدے اور اعلانات پورے کر بھی سکتا ہے؟ اس کی ریپوٹیشن، علاقے کے لحاظ سے پلاٹ کی قیمت، تعمیر کا ٹائم فریم سب کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں، اسی لیے عوام ہم پر اعتماد کرتے ہیں۔
س:گوادر سےقریب تر بڑا شہر کراچی ہے۔ یہاں سے وہاں تک آسان رسائی ممکن ہے؟
ج:جنرل پرویز مشرف نے اس سوئے ہوئے خطّے کو متحرّک کیا۔ اُن کا سب سے بڑا کارنامہ،’’ کوسٹل ہائی وے‘‘ کی تعمیر ہے، جس نے نہ صرف بلوچستان کو ترقّی کی راہ پر گام زَن کیا، بلکہ کراچی سے گوادر کے سفر کو، جو کئی دنوں پر محیط ہوتا تھا، چند گھنٹوں تک محدود کردیا۔
اب کراچی سے گوادر کا فاصلہ چھے سے آٹھ گھنٹے کا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ، جام کمال نے بتایا ہے کہ حب سے گوادر تک شاہ راہ کو فوج کنٹرول کر رہی ہے اور جگہ جگہ پولیس چوکیاں بنائی جا رہی ہیں۔ اب کسی خوف کے بغیر کراچی سے بذریعہ سڑک گوادر جایا جا سکتا ہے۔
س:بلڈرز عوام کو کیا سہولت دے رہے ہیں؟
ج:ہم عوام کو اب بھی 8سال پرانے ریٹس پر پلاٹس دے رہے ہیں، البتہ ترقّیاتی کاموں کی مد میں اخراجات کچھ اوپر نیچے ضرور ہو سکتے ہیں۔ اب بھی وہاں 8سے 10لاکھ میں پلاٹ مل رہا ہے۔
س:آپ وہاں عوام کو کیا خدمات فراہم کرتے ہیں؟
ج: ہمارے ادارے کے چیئرمین، واثق نعیم صاحب نے 10 برس قبل ہی گوادر میں رئیل اسٹیٹ کا کام شروع کردیا تھا۔چوں کہ معیار اور وعدوں کو پورا کرنا اُن کی پہچان ہے، اس لیے عوام اور بلڈرز نے اُن کی کمپنی کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اسٹار مارکیٹنگ کے وہاں کئی پراجیکٹس ہیں، جن میں سَن بلڈرز اینڈ ڈویلپرز بھی شامل ہے۔
س: ان دنوں مُلکی معاشی صُورتِ حال پر فکرمندی ظاہر کی جا رہی ہے، تعمیراتی صنعت کس حال میں ہے؟
ج: تعمیراتی اشیاء جیسے لوہا، سیمنٹ وغیرہ مسلسل منہگے ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت کو ان اشیاء پر ریلیف دینا چاہیے۔ نیز، تعمیرات کے حوالے سے قوانین میں نرمی اور اس سے متعلقہ اداروں میں کرپشن ختم کی جانی بھی ضروری ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے اب کام ہو رہا ہے۔
س: لوگ کہتے ہیں کہ عالمی مشاعرے میں پرچیاں چلتی ہیں؟
ج: دیکھیں جی! پیرزادہ قاسم صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی شعراء کا انتخاب کرتی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہر بار کچھ نئے شعراء کو بھی موقع دیا جائے، اس لیے بعض پرانے شعراء کو مجبوراً ڈراپ کرنا پڑتا ہے۔
انفرا اسٹرکچر کی تعمیر میں تیزی، پورے گوادر کو ٹیکس فِری کرنا ہوگا
محمود احمد خان کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بلڈرز کو انفرا اسٹرکچر مہیا کیا جائے تاکہ مالکان کو پلاٹ دے سکیں۔ نیز، حکومت نے چائنیز کے ایک مخصوص علاقے کو فِری زون قرار دیا ہے، جب کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ پورے گوادر کو ٹیکس فِری قرار دیا جائے۔
ہم نے بارہا حکومت کی اس جانب توجّہ مبذول کروائی کہ ہم زمینیں خرید چُکے ہیں، اب انفرااسٹرکچر بنائیں اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کریں تاکہ اسکیمز مکمل ہوسکیں، کیوں کہ مالکان، پلاٹس کا قبضہ مانگ رہے ہیں، جو اُن کا حق ہے۔
گوادر کی ترقّی میں فوج کا کلیدی کردار ہے
گوادر میں امن وامان کی صُورتِ حال پر محمود احمد خان کا کہنا تھا کہ پہلے تو وہاں سیکوریٹی کے مسائل تھے، مگر اب پاک فوج کی بریگیڈ 44نے معاملات سنبھالے ہوئے ہیں، جس سے امن و امان کی صُورتِ حال بہتر ہو گئی ہے۔اگر سی پیک کے پیچھے فوج کھڑی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ یہ منصوبہ ہر صورت کام یاب ہو گا۔ اس لیے یہ بات ذہن سے نکال دینی چاہیے کہ سی پیک کبھی لپیٹ دیا جائے گا۔
پہلے بلڈرز امن و امان کی وجہ سے وہاں آتے جاتے ڈرتے تھے، جس کی وجہ سے اعلان کردہ منصوبوں پر کام بھی نہیں ہو پا رہا تھا، مگر اب ہم پورے اطمینان سے رات دن وہاں گھومتے پھرتے ہیں اور یہ سب کچھ پاک فوج کے مرہونِ منّت ہے۔