اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت مخالف مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ اور دھرنا روکنے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے، مگر اجازت کے بغیر کوئی دھرنا نہیں دے سکتا۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دھرنے کے خلاف شہری حافظ احتشام کی درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار حافظ احتشام نے عدالت میں موقف اپنایا کہ فیض آباد دھرنے پر از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں بھی احتجاج کے لیے جگہ مختص کرنے کا کہا گیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ پی ٹی آئی مارچ کے سلسلے میں عدالتی حکم نامے دیکھیں، عدالت نے کہا کہ احتجاج ان کا حق ہے مگر انہیں ریگولیٹ کیا جائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ اس معاملے کو ڈپٹی کمشنر دیکھیں گے، آپ کی پٹیشن اس وقت قبل از وقت ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ابھی تو کسی نے ضلعی انتظامیہ کواحتجاج کی اجازت کی درخواست ہی نہیں دی، ہم مفروضے پر کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس میں کہا کہ اگر وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے اجازت نہیں لیتے تو وہ خود اس معاملے کو دیکھیں گے، جو قانون اور عدالتی فیصلے پہلے سے ہیں اس پر عمل درآمد کرانے کے پابند ہیں۔
درخواست گزار حافظ احتشام نے عدالت کو بتایا کہ پہلے بھی پی ٹی آئی والے دھرنے کے لیے آگئے تھے اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی خراب ہوئی تھی جس پر جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ لاء اینڈ آرڈر کو دیکھنا حکومت کا کام ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر اس سے دوسرے شہری متاثر نہ ہوں ، اجازت کے بغیر کوئی نہیں آسکتا، احتجاج کی اجازت ملی تو وہ آئیں گے۔
اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے درخواست گزار کو وکیل کرنے کی اجازت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔