حقائق کیا ہوتے ہیں اور دنیا کو کس طرح گمراہ کیا جاتا ہے، انسانی تاریخ اس المناک کردار سے بھری پڑی ہے۔
بہرحال ہمارا مقصد اس وقت انسانی تاریخ کے اس پہلو کو زیر بحث لانے سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ہم تو گزشتہ چند برسوں خصوصاً عمران خان کی دھرنا مہم کے دوران میں ’’دو سو ارب‘‘ ڈالروں کی لوٹی ہوئی جو کہانیاں سنتے رہے ہیں اس کی بابت تازہ ترین صورتحال جان کر ششدر رہ گئے ہیں۔
6؍اکتوبر 2019ء کو قومی اخبارات میں ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی کا شائع شدہ یہ بیان شائع ہمیں ششدر کر گیا کہ ’’گزشتہ بیس سال سے 6ارب ڈالر پاکستان سے باہر منتقل ہوئے اور یہ رقم فارن کرنسی اکائونٹ کے ذریعے منتقل کی گئی جنہیں فارن کرنسی ایکٹ 1992کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہے۔ یہ منی لانڈرنگ نہیں،
ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک بھیجا گیا پیسہ پاکستان واپس نہیں لا سکتے، اس میں سے 80فیصد پیسہ فارن کرنسی اکائونٹس کے ذریعہ باہر گیا جس میں ٹیکس چوری کا پیسہ بھی شامل ہے تاہم 15سے 20فیصد کرپشن کا پیسہ ایک مشکل طریقہ کار کے تحت پاکستان واپس لایا جا سکتا ہے۔
اس وقت بھی پاکستان سے سرمایہ باہر جا رہا ہے ہم اسے روک نہیں سکتے، یہ اس وقت تک جاتا رہے گا جب تک ہم پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لئے محفوظ ترین اور موزوں ترین ملک نہیں بنا لیتے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سو ارب ڈالر ملک سے باہر ہونے کا تاثر بالکل غلط ہے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے ہاں غریب ممالک سے لوٹی گئی دولت چھپانے اور اس سے فوائد حاصل کرنے کے لئے محفوظ ترین ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور یہی پیسہ ہمیں گرانٹس اور قرض کی صورت میں واپس ملتا ہے۔
انہوں نے ترقی یافتہ ممالک سے کہا کہ وہ ان محفوظ پناہ گاہوں (سیف ہیونز) کے دروازے بند کریں اور غریب ممالک سے دولت لے جانے والوں کی معلومات ان ممالک کو دیں تاکہ ان سے پوچھ گچھ ہو سکے‘‘۔ انہوں نے یہ انکشافات اسلام آباد کے ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کئے۔
یہ تفصیل دینے سے ہمارا مقصد نہ تو عمران حکومت کی بے جا مخالفت ہے نہ سیاستدانوں کی بے جا حمایت، اس سے مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کو کس بری طرح گمراہی میں مبتلا کیا جاتا ہے۔
شبر زیدی صاحب کے پورے بیان میں جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ بذات خود حیران کن ہیں لیکن انہوں نے ان ’’دو سو ارب‘‘ ڈالروں کا تو نام تک نہیں لیا جن کے بارے میں ملک کے بچے بچے کے ذہن میں یہ ڈال دیا گیا کہ پاکستانیوں نے بیرون ممالک میں ’’دو سو ارب ڈالر‘‘ جمع کرا رکھے ہیں۔
دوسری جانب ملکی حالات پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ ہی زیرِ بحث ہے۔
ہمارے نزدیک مولانا فضل الرحمٰن کی حکومت مخالف تحریک اس حکومت کے لئے کوئی مسئلہ پیدا کرتی ہے یا نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کے مجموعی کاروباری ماحول کو عمران حکومت نے شکستہ اور بے حال کر دیا ہے۔
یہی ہو سکتا ہے کہ غیب سے کوئی ایسے مزید اسباب پیدا ہو جائیں جن سے ملک کے کاروبار کی جو مجموعی گاڑی پٹڑی سے اتاری جا چکی ہے وہ دوبارہ پٹڑی پر چڑھائی جا سکے۔
مولانا فضل الرحمٰن پاکستانی سیاست کا وہ کردار ہیں جنہوں نے مذہبی سیاست کو جذباتی نعرے بازی سے نکال کر حقیقت پسندی کی طرف کامیابی سے دھکیلا۔ ان کا اثر و رسوخ پاکستان ہی نہیں بلکہ سرحد پار افغانستان میں بھی موجود ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا فضل الرحمٰن آج کل حکومت کے خلاف مارچ کے اعلانات کر رہے ہیں ان سےہمارے جنگ کے اعزاز صاحب کی چار ستمبر (غالباً 2019ء ہی مراد ہے) کو ایک طویل ملاقات ہوئی جس سے راقم نے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کئے ہیں:
اول، مولانا پاکستان میں طاقت کے تمام کرداروں سے مکمل رابطوں میں ہیں۔
دوم، فی الحال مولانا اپنے آزادی مارچ کو کامیابی سے اسلام آباد لانے کے لئے مدد و معاونت کے طلب گار ہیں۔ وہ پانی کی گہرائی کا اندازہ لگا رہے ہیں ۔
سوم، مولانا فضل الرحمٰن نے اب چونکہ تاریخ (31اکتوبر) کا اعلان کر دیا سو وہ کسی بھی خطرے کی پروا کئے بغیر اسلام آباد آنے کی کوشش کریں گے۔ خود گرفتار ہو بھی گئے تو اُن کے کارکن ضرور اسلام آباد پہنچیں گے۔
چہارم، مولانا نے پندرہ لاکھ افراد اسلام آباد لانے کا اعلان کیا ہے، اگر وہ ایک لاکھ افراد بھی کامیابی سے اسلام آباد لے آئے تو مشترکہ اقتدار کی موجودہ دیواروں میں عدم اعتماد کی ایسی دراڑیں پڑیں گی جس کا نتیجہ میری نظر میں حکومت کی رخصتی کی صورت میں نکلتا نظر آتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کوئی اور نہیں صرف مولانا ہی لا سکتے ہیں اور میری اطلاع یہ ہے کہ وہ کئی اہم شخصیات سے ملاقاتوں میں انہیں کم از کم ایسا سوچنے پر مجبور کر چکے ہیں۔
حالات کا تجزیہ کرنے اور سیاست میں ہلچل مچانے کا فن کوئی مولانا فضل الرحمٰن سے سیکھے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)