• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آزاد ی مارچ کی حمایت ، نواز شریف نے مفاہمتی پالیسی مسترد کردی

 اسلام آباد (طارق بٹ ) پاکستان مسلم لیگ (ن )کےقائد نواز شریف کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کی مکمل حمایت کے اعلان کے بعد مارچ میں پارٹی کی شرکت کے حتمی فیصلے کے حوالے سے موجود ابہام دور ہوگیا۔

نواز شریف نے مفاہمتی پالیسی مسترد کردی

نواز شریف نے مفاہمتی پالیسی مسترد کردی ، آزادی مارچ میں مسلم لیگ ن کی شرکت کے حوالے سے ابہام دور ہوگیا ،مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ کے حوالے سے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں میں سے ایک کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ، مسلم لیگ میں یہ اعزاز نواز شریف ہی کو حاصل ہے کہ پارٹی کارکن ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں ۔پارٹی میں موجود مفاہمت کے حامی عناصر یہ دلیل دے رہے تھے کہ آزادی مارچ سے دور رہنا چاہئے کیوں کہ اس میں مذہبی کارڈ استعمال کیا جارہا ہے اور مزاحمت کا رآمد نہیں ہوگی ۔ ان افرادکا مطالبہ تھا کہ مفاہمتی راستہ اختیار کیا جانا چاہئے تاکہ اس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کی قیادت کو درپیش مشکلات میں کمی آسکے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ قید میں ہونے اور پارٹی رہنمائوں تک محدود رسائی کے باوجود نواز شریف کی پارٹی پر گرفت مضبوط ہے اور حتمی فیصلہ سازی کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے ۔ دوسرا یہ کہ شہباز شریف کی خوشامدانہ اور پرامن رہنے کی پالیسی کو ایک بار پھر رد کردیا گیا ہے ۔ اگر چہ وہ پارٹی میں صرف برائے نام صدر ہیں تاہم وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ پارٹی پر مکمل کنٹرول رکھ سکیں ۔ یہ بات اہم نہیں کہ آیا وہ ذاتی طور پر آزادی مارچ کا حصہ بنیں گے یا نہیں ۔ نواز شریف کےکھلم کھلا اعلان نے انہیں ایک مشکل صورتحال میں پھنسا دیا ہے اور ان کے بیانیے کو ختم کرکے رکھ دیا ہے ۔ تیسرا یہ کہ سابق وزیراعظم اب بھی اپنے بیانئے پر کھڑے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو۔ چوتھا یہ کہ بطور وزارت عظمیٰ سے برطرفی ، عمر بھر کیلئے نااہلی ، بیٹی کی گرفتاری اور دیگر مشکلات کے باوجود نواز شریف کو مفاہمت پر قائل نہیں کیا جاسکا ۔ پانچواں یہ کہ نواز شریف کے اعلان کے بعد آزادی مارچ میں پارٹی کی شرکت کے حوالے سے ابہام دور ہوگیا ہے ۔ چھٹا یہ کہ نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر جو کئی ہفتوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ آزادی مارچ میں شرکت کرے گی صحیح ثابت ہوئے ۔ ساتواں یہ کہ نوازشریف یہ سمجھتے ہیں کہ2018کے انتخابات کے بعد فضل الرحمان کا موقف درست تھا کہ اسمبلیوں سے باہر آنا چاہئے تاہم اس وقت بھی پیپلز پارٹی کے علاوہ مفاہمتی پالیسی کے حامل افراد کا موقف تھا کہ اسمبلیوں سے باہر آنا دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔ آٹھواں یہ کہ نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ مولانا کے احتجاج کی کال پر دھیان نہ دینا غلطی ہوگی ۔نواں یہ کہ سابق وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ انہیں قید کی وجہ سے جھکنے یا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائیگا۔ دسواں یہ کہ نواز شریف کے اعلان کے بعد مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ کے حوالے سے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں میں سے ایک کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔طویل عرصے بعد نواز شریف کو یہ موقع ملا کہ انہوں نے صحافیوں کے ذریعے سے اپنے خیالات کو عوام تک پہنچایا جس کا سہرا احتساب عدالت میں ان کی پیشی کے سر ہے ۔ نوازشریف کے 14روزہ جسمانی ریمانڈ جس کی مدت میں توسیع بھی کی جاسکتی ہے کے دوران ان کے اپنے قریبی رشتہ داروں سے ملاقاتوں پر مزید قدغنیں بھی لگائی جاسکتی ہیں ۔ تاہم یہ ایک کھلا سوال ہے کہ آزادی مارچ میں پی ایم ایل این کے کتنے کارکن شریک ہوں گے ۔

تازہ ترین