• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد شریف بقاء (لندن)
یہ وسیع وعریض کائنات خدا تعالیٰ کی خلاقی صفت، اس کی شان کبریائی اور اس کی حکمت بالغہ کی آئینہ دار ہے۔ اگرچہ سائنسدانوں، فلسفیوں، صوفیوں اور دیگر ارباب فکر ودانش نے اس کی ابتدا ور غرض وغایت کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے ہیں تاہم اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ صانع حقیقی کی لاجواب اور حیرت انگیز کاریگری پر دلالت کرتی ہے۔ سائنس دان اس کے عمیق مطالعہ ومشاہدہ کے ظاہری، مادی اور جہتی پہلوئوں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ صوفیانہ، عرفاء اور اکثر حامیان مذاہب اس کے باطنی، غیرمرئی اور روحانی حقائق میں یقین رکھتے ہیں۔ اسلام چونکہ متوازن اور جامع نظریہ حیات کا علمبردار ہے اس لئے وہ اس کے خارجی اور باطنی دونوں پہلوئوں کی اہمیت وافادیت کو تسلیم کرتا ہے۔ قرآن کی رو سے خالق کائنات اپنی عظمت، ہستی، قدرت اور تخلیقی صفت کی نشانیوں کو ہمار ے باطن میں بھی دکھاتا ہے اور خارجی مظاہر فطرت میں بھی۔ اس نقطہ نگاہ سے اس کے گہرے اور حقیقت کشا مطالعہ ومشاہدہ کیلئے ہمیں بصارت اور بصیرت دونوں سے کام لینا ہو گا کیونکہ کائنات کے داخلی اور خارجی حقائق کا خالق خدائے واحد ہی تو ہے۔ قرآن حکیم اس امر کی طرف ہمار ی توجہ دلاتے ہوئے کہتا ہے ۔
عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں بھی اور ان کے انفس میں بھی دکھائیں گے یہاں تک کہ یہ واضح ہوجائے کہ وہ (خدا تعالیٰ) حق ہے۔
علامہ اقبال ؒ اس آیہ قرآنی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی کتاب ‘‘تشکیل جدید الہیات اسلامیہ
(The Reconstrustion of Religious thought in Islam)
کے خطبہ اول میں رقم طراز ہیں
"The ultimate reality... reveals its symbols both within and without."
مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس حیرت انگیز اور مفید صحیفہ فطرت کا عمیق مطالعہ ومشاہدہ کر کے حقائق کائنات اور اسرار حیات سے آگاہ ہوں اور ان مظاہر قدرت کومسخر کر کے اپنی زندگی کو بہتر اور مفید خلائق بنا سکیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قرآن حکیم نے کائنات کی تخلیق کو کوئی حادثہ یا واہمہ قرار نہیں دیا بلکہ اس کو حقیقی کہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے(سورئہ العنکبوت، آیت 44)
اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بالحق پیدا کیا ہے۔ بے شک ایمان والوں کے لئے اس میں نشانی ہے۔
اگر غیرمسلم اس کے مطالعہ ومشاہدہ سے اپنے آپ کو سائنسی اور تکنیکی ترقی کے ذریعے طاقتور بنا سکتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے نامور اسلاف نے مختلف علوم وفنون میں حیرتناک ترقیاں کیں اور انہوں نے مغربی اقوام پر بھی اثرات چھوڑ ے ہیں مگر ہم تو ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔
علامہ اقبالؒ تمام عمر اسلامیان عالم کی ذہن اور سیاسی بیداری کی آزادی اور ہمہ پہلو ترقی کے لئےکوشاں رہے۔ وہ ان کی پستی، زبوں حالی، محکمومی اور غربت وزوال سے بے حد پریشان تھے، ان کی مسلسل یہی کوشش رہی کہ وہ انہیں ماضی کی شاندار عظمت وروایات کے امین اور درخشاں مستقبل کے مالک بنا سکیں۔ اس مقصد کے لئے وہ مسلمانوں کو کئی مفید مشورے دیتے رہے۔ ان کی یہ دیرینہ آرزو تھی کہ کسی طر ح ملت اسلامی روحانی اور مادی صفات سے فیضیاب ہو۔ ان کی رائے میں موجودہ مسلمانوں کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ خدا کی خلاقی صفت اور اس کی قدرت کی گوناں گوں نشانیوں کی مظہر اس کائنات کی تسخیر سے غافل رہے۔ حالانکہ قرآن حکیم کی بے شمار آیات میں اس کے گہرے مطالعہ اور بصیرت آموز مشاہدہ کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن مجید نے بارہا اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ یہ کائنات حقیقی انسان کی خدمت اور مطالعہ کیلئے پیدا کی گئی ہے۔ شمس وقمر کا وجود ستاروں سے مزین بزم آسمانی، بارش فضا کی نیرنگیاں، زمین کی وسعت، مختلف رنگو ں کے پھل پھول، حیوانات اور زمین کے خزانے وغیرہ انسان کے جائز مقاصد کی تکمیل اور اس کی خدمت کیلئے بنائے گئے ہیں اب یہ انسان کا فریضہ ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں اپنے آپ کو اشرف المخلوقات اورزمین پر نائب حق ثابت کرنے کیلئے آسمانوں اور زمین کے پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھائے اور انہیں بنی نوع انسان کی خدمت اور منفعت کے لئے استعمال کرے۔ حقائق کائنات کا علم انسان کو وہ قوت عطا کردیتا ہے جن کی بدولت وہ مہروماہ پر کمندیں ڈالنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس کا یہ بھی انسانی فرض ہے کہ وہ اس کائنات ارضی وسماوی کے خالق واحدکی بندگی کرے اور اس کے قوانین پر چل کر دنیا میں امن وراحت کا ماحول بنائے۔ علم وحکمت کا غلط، تباہ کن اور انسانیت سوز عمل کسی طرح عمل بھی قابل ستائش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ علامہ اقبالؒ تسخیر فطرت کے درست اور مفید خلائق طریق کو نائب حق کی شان قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ؎
نائب حق درجہاں بودن خوش است
بر عناصر حکمراں بودن خوش است
دنیا میں نائب حق ہونا اور فطرت کی طاقتوں پر حکمرانی کرنا بہت ہی اچھا ہے۔
یہ تسخیر فطرت نہ صرف انفرادی خودی کو مضبوط بناتی ہے بلکہ اس سے قومی خودی بھی مستحکم ہوتی ہے۔ علامہ اقبال ؒ اس تسخیر کو ملت اسلامیہ کے استحکام کی اہم وجہ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں؎
صد جہاں دریک فضا پوشیدہ اند
مہرہا در ذرہ ہا پوشیدہ اند
چشم خود بکشا ودراشیا نگر
نشہ زیر پردہ صبا نگر
جستجو را محکم از تدبیر کن
انفس وآفاق را تسخیر کن
تا نصیب از حکمت اشیا برد
ناتواں باج از توانایاں خورد
اس ایک فضا میں سیکڑوں جہاں چھپے ہوئے ہیں۔ ذرات میں بھی کئی سورج پوشیدہ ہیں تو اپنی آنکھیں کھول کر چیزوں کو غور سے دیکھ۔ تو شراب کے پردے کے نیچے نشہ کودیکھ لےتو اپنی تدبیر سے اپنی تحقیق کومضبوط کر کے انفس وآفاق کو مسخر کرلے۔
جب تک کوئی کمزور آدمی اشیاء کی حکمت (سائنس) کا حصہ دار رہتا ہے وہ طاقتوروں سے خراج وصول کرتا رہتا ہے۔ کیا مغربی طاقتوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تحقیقی کامیابیاں حاصل کر کے طاقت کی نعمت نہیں پائی؟ کیا اسی طاقت کی بنا پر وہ ہماری گوناگوں سیاسی، عسکری اور اقتصادی مجبوریوں سے ناجائز فائد ہ نہیں اٹھا رہی ہیں؟ علامہ اقبالؒ کو ہم سے یہ شکوہ ہے کہ ہم اہل مشرق مدت سے تسخیر فطرت کو نظرانداز کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں؎
خودی کو موت سے مشرق کی سرزمینوں میں
ہوا نہ کوئی خدائی کا راز داں پیدا
تازہ ترین