• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آدرش

کراچی کا مُضافاتی علاقہ گڈاپ جو کہ رقبہ کے لحاظ سے بھی کراچی کا سب سےبڑا ٹاؤن شمار کیا جاتا ہے۔ آخری مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق گڈاپ ٹاؤن میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔ گڈاپ کا علاقہ تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے، قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ گڈاپ کا علاقہ قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے جہاں پر ریتی بجری، ماربل، سنگ مرمر، سیسہ و دیگر معدنیات موجود ہیں۔

پورے گڈاپ کو دورہ کرنے میں تقریباً 2 دن لگ سکتے ہیں۔ گلشنِ معمار سے گڈاپ کا آخری حصہ تقریباً 145 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے لیکن دشوار گذار اور پتھریلے راستے سفر کو مزید طویل بنا دیتے ہیں۔ گڈاپ میں نمایاں مقامات نیشنل کیتھر پارک، مہر جبل، موئیدان، گنڈھ جھنگ، وار گھنڈ، کار سینٹر، تھڈوڈیم، لٹھ ڈیم، مورو و دیگر شامل ہے۔

گڈاپ کی خاص پیدوار پالک، لوکی، آلو، پیاز، ٹماٹر، بیگن، کدو، امرود، چیکو سمیت کئی اقسام کی سبزیاں اور پھل شامل ہیں۔گڈاپ میں سفر کرتے ہوئے آپ حیرت میں مبتلا ہوجائیں گے، راستے میں پُر اسرار پہاڑ، چھوٹی بڑی چوٹیاں، صحرا۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ گڈاپ کے علاقے میں وائلڈ لائف کا محکمہ بھی موجود ہے، کیونکہ ان علاقوں میں بڑی تعداد میں نایاب جانور بھی پائے جاتے ہیں، جس میں پاکستان کا قومی جانور مار خور، ہرن اور مور قابل ذکر ہیں۔ گڈاپ میں موجود مہر جبل جو کہ سطح زمین سے تقریبا 1800 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے اتنے قریب نظر آتے ہیں کہ جیسے ہاتھ بڑھا کر چھو لیا جائے۔

گڈاپ، جس کے ایک طرف کراچی جیسا بڑا شہر ،دوسری طرف بلوچستان کی پہاڑیاں ،اس کے ساتھ حب ڈیم ، مشرق میں دادو کے پہاڑ اور جنگلات واقع ہیں۔ گئے وقتوں میں یہاں زراعت ہوتی تھی، کسان خوش حال تھے، مگر اب وہ باتیں سب خواب ہوئیں ۔پہلے مون سون کی بارشوں سے ندیاں پانی سے لبریز بہتی تھیں ، جب سے ان ندیوں سے ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ریتی چرا کر کراچی کے بلڈروں کو بیچ کر انھیں خالی اور بے جان کر دیا گیا ہے، یہاں اب ویرانی ہے۔

وہ ریتی جو ایک نعمت تھی، ایک دولت تھی، جس کے بدولت ندیوں کا بہتا پانی زمیں میں جذب ہوکر گڈاپ کی زمینوں کی پیاس بجھاتا تھا، جس کی وجہ سے ملیر کی زمینیں آباد ہوتی تھیں، تب سے یہاں پانی کی سطح 500 فٹ یا اس بھی نیچے چلی گئی ہے ۔نیزاس سے پانی کاہونا بھی نہ ہونے جیسا ہے ،کیوںکہ اس پانی کے پینے سے گڈاپ میں بہت سی بیماریاں عام ہو گئی ہیں؛ جیسے ہپاٹائیٹس ،ڈائیریا اور بہت سی بیماریاں ۔

نیز جب سے یہاں گٹکا، چھالیہ، مین پوڑی اور ماوا جیسی چیزیں عام ہوئیں ہیں تب سے یہاں منہ کے کینسر کے مریضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سب سے خطرناک اب یہاں چرس، ہیروئین اور شیشہ جیسی موذی منشیات بھی با آسانی دستیاب ہیں ۔

صحت کے مسائل کا یہ عالم اور المیہ یہ کہ یہاں کوئی ڈھنگ کا اسپتال بھی نہیں ۔لاکھوں لوگوں کے لیے ایک اسپتال، وہ بھی اس حالت میں کہ کوئی ڈھنگ کا ڈاکٹر نہیں۔ یہاں اگر کوئی شدید بیمار ہوجائے تو اس کے لیے بھی کراچی شہر کے اسپتالوں کا رخ کرنا ضروری ہے۔

گڈاپ میں سب سے بڑا مسئلہ مواصلاتی نظام، ٹرانسپورٹ اور پانی کا ہے گڈاپ میں ندی کے قریب تو کنویں کے ذریعے پانی ملنے کا امکان ہوتا ہے اور اسی پانی سے مقامی افراد نے کھیتی باڑی سے اپنا روزگار کا سلسلہ قائم کیا ہوا ہے، لیکن ندی سے دور دراز گاؤں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ 

بیشتر فلاحی ادارے گڈاپ کے مضافات میں اپنا کام انجام دے رہے ہیں لیکن یہ مسائل کو حل کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے گڈاپ کی عوام کے لئے کم از کم زندگی کے سب سے اہم جزو پانی کے مسئلہ کو فوری حل کرنے کے لئے فلاحی اداروں سے مل کر بہتر حل نکالیں تاکہ گڈاپ کی عوام کچھ سکھ کا سانس لیں۔

علاج و معالجے کی ناکافی سہولیات بھی گڈاپ ٹاؤن کا ایک المیہ ہے۔ فلاحی ادارے اپنے محدود وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ہفتہ میں 1 دن میڈیکل کیمپ کا اہتمام کرتے ہیں جن سے چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج تو کر دیا جاتا ہے، لیکن کسی بڑے مرض کی تشخیص کے لئے مریض کو شہر کے کسی بڑے اسپتال میں داخل کرائے بغیر مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ 

اُس علاقے میں غربت اور افلاس کا یہ عالم ہے کہ لوگ مریض کا علاج کرانے سے قاصر ہیں اور علاج کروائیں تو کروائیں کیسے کہ یا تو دو وقت کی روٹی کا انتظام کرلیا جائے یا پھر علاج کروالیا جائے، دونوں چیزیں ایک ساتھ وہاں ممکن ہی نہیں۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ کی کمی بھی گڈاپ کے باسیوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرانسپورٹرز زائد کرائے وصول کرتے ہیں اور لوگ دینے پر مجبور ہیں۔

حکومتی عدم توجہی کا شکار، قدرتی حسن سے مالامال اس علاقے پر اگر توجہ دی جائے تو سیاحوں کے لئے یہ نہایت ہی بہترین جگہ سکتی ہے۔ اِس طرح نہ صرف آمدن میں اضافہ ہوگا بلکہ سیاحت میں اضافے سے مقامی لوگوں کے معاشی حالات بھی بہت حد تک بہتر ہوسکتے ہیں۔ اِس وقت مقامی افراد کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مال مویشی ہے لیکن کئی سالوں سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے گڈاپ قحط سالی کا شکار ہے، اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مسائل میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے جو انسانی المیے کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔

آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ گڈاپ ایڈوینچر ٹور کرنے والوں کے لئے نہایت ہی خوبصورت جگہ ہے،

تازہ ترین