جیسے جیسے مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت جمعیت علمائےاسلام کے اعلان کردہ احتجاجی مارچ اور اس سے جُڑے دھرنے کے دن قریب آرہے ہیں پاکستان میں سردی کا موسم شروع ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست کی گرمی بڑھتی جارہی ہے۔
ابھی جب میں یہ کالم تحریر کررہا ہوں وزیر اعظم پاکستان عمران خان سعودی عرب میں موجود ہیں اور ریاض سے مدینے پہنچ چکے ہیں۔ ریاض میں اُن کی ملاقات کنگ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ہوچکی ہے ۔
عمران خان بروز بدھ پاکستان واپس پہنچ جائیں گے جہاں پر مولانا فضل الرحمٰن کے احتجاج کی خبریں زبان زدعام ہیں اور اپوزیشن کی تقریباً ساری ہی سیاسی جماعتیں اس احتجاج کی حمایت کرچکی ہیں۔
احتجاج کے ساتھ ساتھ دھرنے نے یقینی طور پر عمران خان کی حکومت کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ وزیر اعظم کے واپس پہنچتے ہی سیاسی گرمی شاید کچھ ٹھنڈی پڑجائے گی ۔
میں قارئین کو یاد کراتا چلوں کہ 2017میں امام کعبہ نے جمعیت علمائے اسلام کے قیام کے سو سالہ جشن میں شرکت کی تھی اور دس لاکھ سے زیادہ افراد نے امام کعبہ کی امامت میں نماز جمعہ بھی ادا کی تھی۔
امام کعبہ کو مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ خاص انسیت ہے اور اس کا اظہار انھوں نے نوشہرہ میں اپنی تقریر میں بھی کیا تھا۔
اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی حکومت کا مولانا کے احتجاج کو روکنے کا اخلاقی جواز صفر ہی ہے کیونکہ مولانا اور دیگر اپوزیشن بھی اُسی نعرے پر باہر نکل رہی ہے جس نعرے پر پی ٹی آئی نے 2014میں 126 دن تک دھرنا دیا۔پی ٹی آئی عوام کو سینکڑوں خواب دکھاکر اقتدار میں آئی مگر جب سے عمران خان کی حکومت بنی ہے عوام کی پریشانی کم ہونے کےبجائے بڑھ گئی ہے۔
مہنگائی کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے کی طاقت بھی تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ عمران خان کو یقیناًاس کا ادراک ہوگا مگر وہ ابھی تک ایسا مستند معاشی فارمولا نہیں دے سکے جس سے عوام کے اوپر ٹوٹنے والا مہنگائی کا پہاڑ کچھ کم ہوسکے۔
اقوام متحدہ میں شاندار تقریر کے بعد عمران خان ایک بین الاقوامی لیڈر بن کر ابھرے اور وہ اپنی اس پذیرائی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ہی مستقل ایسے ممالک کا دورہ کررہے ہیں جن کو بین الاقوامی میڈیا نمایاں کوریج دیتا ہے۔
وہ اقوام متحدہ سے واپس آتے ہی چین گئے اور پھر ایران اور اب سعودی عرب جس کے باعث وہ مسلسل بین الاقوامی میڈیا کی ہیڈ لائنز میں ہیں اور آئندہ بھی آپ دیکھیے گا یا تو دنیا کے نامی گرامی لیڈر پاکستان آرہے ہوں گے یا پھر ہمارے وزیراعظم اس طرح کی ریاستوں کے دوروں پر رہیں گے ۔ مگر ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام پر بھی وزیر اعظم کو توجہ دینی ہوگی اور اپوزیشن کی صفوں سے مسلسل بڑھنے والا طوفان جس کا رُخ حکومت کی طرف ہے، روکنا ہوگا۔
اطلاعات ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن نے گوکہ احتجاجی مارچ کی کال دی ہے اور 31اکتوبر تک پورے ملک سے نکلنے والے یہ احتجاجی مارچ اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دیں گے اور وزیر اعظم عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کریں گے۔ حکومت نے اس احتجاج کو مکمل طور پر روکنے کا پلان بنایا ہوا ہے تاہم وہ مولانا کے پلان B اورپلان C سے واقف نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق مولانا کا پلان B یہ ہوگا کہ اگر احتجاجی مارچ کے شرکاء کو گرفتار کیا گیا چاہے اُس میں جمعیت کی مرکزی قیادت ہی کیوں نہ شامل ہو تو مولانا کے کارکن ملک بھر میں مرکزی شاہراہیں جام کردیں گے اور اس کا آغاز کراچی میں سہراب گوٹھ سے کریں گے جہاں سے پورے ملک کیلئے ٹریفک خصوصاً آئل ٹینکرز روانہ ہوتے ہیں۔
مولانا کے پلان B کے مطابق مولانا آخر تک کہیں نظر نہیں آئیں گے اور 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں نمودار ہونگے۔ اس سے پہلے تک وہ کارکنان سے بذریعہ فون و ویڈیو لنک رابطہ رکھیں گے۔
مولانا کے ساتھ کم از کم دس ہزار کارکنوں کا جتھہ ہوگا جن میں سے کئی مسلح بھی ہوسکتے ہیں ۔ اگر کسی وجہ سے مولانا اپنی گرفتاری کو نہ بچا پائے تو پورے ملک میں جی ٹی روڈ کو جام کردیا جائے گا جسے این ایچ اے کی زبان میں این ایچ 5 کہا جاتا ہے اور اُس وقت تک خالی نہیں کیا جائے گا جب تک مولانا کو رہا نہیں کردیا جاتا۔
اگر مولانا کے قافلوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے اسلام آباد پہنچنے دیا گیا تو مولانا پرامن طریقے سے ڈی چوک پر براجمان ہوجائیں گے اور روزانہ وہاں تلاوت قران پاک و درس و تدریس کا مرکزی سلسلہ شروع ہوجائے گا اور روزانہ کی بنیاد پر عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جائے گا۔
اگر میڈیا نے اس احتجاج کا بلیک آؤٹ کیا تو سوشل میڈیا پر جمعیت کا چینل سب کچھ براہ راست دکھائے گا۔ اگر دیگر اپوزیشن جماعتوں نے مولانا کے احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا تو مولانا دوران احتجاج ہی ایسی کسی بھی جماعت سے اظہار لاتعلقی کردیں گے تاکہ وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کی صورت میں وہ جماعت فائدہ نہ حاصل کرسکے۔
مولانا دراصل صرف احتجاجی مارچ پر توجہ نہیں دے رہے بلکہ اُن کی ایک بہت بڑی ٹیم جس میں پڑھے لکھے نوجوان شامل ہیں، سوشل میڈیا پر اس مارچ کی ترویج میں مصروف ہے اور اُن کے پاس کسی بھی بڑے ٹی وی چینل کے مقابلے کی ٹیکنالوجی اور اس کے استعمال کرنے والے ہیں۔
مولانا کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا پر بیرون ملک سے بہت زیادہ اخلاقی دباؤ آسکتا ہے کہ اس احتجاج کو موخر کردیا جائے یا مکمل طور پر یکجہتی کشمیر مارچ میں بدل دیا جائے تاہم اس کا حتمی فیصلہ مولانا ہی کرسکتے ہیں جس کا زیادہ سے زیادہ دو چار دنوں میں پتاچل جائے گا۔