18اکتوبر 2007 کو جن تین خاص مشوروں نےسابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلزپارٹی کی تقریباً ساری مرکزی لیڈر شپ کو کراچی میں بچایا تھا، دو ماہ بعد ہی27 دسمبر کو ہونے والے جان لیوا حملے میں انھیں نظر انداز کردیا گیا۔
تین مشورے اُس’خفیہ سیکورٹی پلان‘میں شامل تھے جوان کی سیکیورٹی ٹیم نےان کی آمد سے10روزقبل سینئر پولیس اور انٹلیجنس اہلکاروں کے ساتھ مشورے کے بعد انھیں دبئی میں بھیجا تھا۔
12سال پرانے اِس کیس کی اندرونی کہانی یہاں پیشِ خدمت ہےجسے ’ایک بلائنڈکیس‘ قرار دے کر بند کر دیا گیا۔ 18اکتوبر 2007 کے واقعات کو پڑھنے اور کیس اسٹڈی اور ان چند اہلکاروں سے بات کرنے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ ان کے جلسےجس میں وہ پرائمری ٹارگٹ تھیں، پر ممکنہ حملے کا’سیکیورٹی الرٹ‘جاری ہونے کے بعد بےنظیر بھٹو کو خطرے کے بارے میں اطلاع دی گئی۔
انھوں نے سابق وزیرِ داخلہ ڈاکٹر ذوالفقارمرزا سمیت اپنی سیکیورٹی ٹیم کے ساتھ رابطہ کیا تاکہ سندھ پولیس کے ساتھ رابطے میں رہیں اور ان کو سیکیورٹی پلان بھیجا جائے۔
ایک اہم ’سیکیورٹی ایڈوائس‘ جسے خود بی بی نے بھی انڈر لائن کیا وہ سابق آئی جی پولیس افضل شگری کی جانب سےآئی وہ ان کولاحق ’خطرات‘ اورقائداعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے بلاول ہائوس تک کس طرح ان کی حفاظت کرنی ہے، سے متعلق تھی۔
لہذا منصوبہ بندی کی گئی اور ان کی سیکیورٹی ٹیم کو بتایاگیا کہ ٹرک کاگھیرائو کیسے کرناہے اور کتنےفاصلے سےکرنا ہے۔ اُن کا مشورہ ان کی پوری الیکشن مہم کیلئے تھا اور سب سے اہم تمام جلسوں، ریلیوں اور عوامی ملاقاتوں کےبعد ان کی سیکیورٹی سےمتعلق تھا۔
انھوں نے کہا دہشتگرد اکثر اس وقت نشانہ بناتے ہیں جب انھیں پولیس، پارٹی کارکنان اور سیکیورٹی کے لوگ پُرسکون ملتے ہیں۔ 27دسمبر کو اگر ان کے مشورے پر عمل کرلیا گیا ہوتا تو غالباً پاکستان کی سیاسی تاریخ مختلف ہوتی۔پہلی میٹنگ سندھ پولیس ہیڈکوارٹرزمیں ہوئی جس میں ان کی سیکیورٹی ٹیم اور پولیس اہلکاروں، سیکریٹری داخلہ اور کچھ انٹلیجنس اہلکاروں نےبھی شرکت کی۔
بے نظیربھٹو نے خود ٹیم بنائی تھی اور وہ ٹیم لیڈرز سےمسلسل رابطے میں تھیں اور جس دن وہ دبئی کیلئے روانہ ہوئیں انھیں انھوں نے گرین سگنل حاصل کیا تھا۔ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جیسے ہی وہ ائیرپورٹ پہنچیں گی تو خصوصی سکواڈ’جانسارانِ بےنظیر‘ گھیرے میں لے لے گا، انھیں اسی مقصد کیلئے تربیت دی گئی تھی۔
یہ بھی مشورہ دیا گیا تھا کہ جہاں تک مکمن ہو ٹرک کو روکنا نہیں ہوگا اور پی پی پی لیڈرشپ کو اس کا چلتے رہنا ممکن بنانا ہوگا اس کا مقصد انھیں مناسب سیکیورٹی میں تحفظ دینا تھا۔ پولیس ہیڈکوارٹرز میں اس سیکیورٹی میٹنگ میں شامل تمام لوگ جانتے تھے کہ ’خودکش حملے‘ کو روکنا آسان نہیں ہوگا، لیکن انھوں نے زیادہ سے زیادہ اقدامات کرنے پر اتفاق کیا اور اگرچہ اس دن دو حملہ آوروں نے خود کو کارساز کے قریب دھماکے سے اُڑا لیاتھا لیکن پریشانی میں وہ ٹریک کے قریب نہیں آسکے اس کی وجہ ٹرک کے گرد بہترین سیکیورٹی کا گھیرا تھا۔
پہلے حملے کے فوراًبعد انھیں بتایاگیا کہ ٹرک سے باہر نہیں آنا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ سیکیورٹی کی جانب سےان کی کارکوکلیئرکرنےکےبعدانھیں شفٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ گھیرے کو دُھرا کیا گیا تھا اور دوسرے خودکش حملہ آور نے گھیرے کو توڑنے کی کوشش کی تو وہ ناکام ہوگیا اور پریشانی میں اس نے خود کودھماکے سے اُڑالیا اور جب تک وہ اور دیگر افرادٹرک سے باہر نہیں نکل گئے تب تک گھیرےکے ذمہ دارافراد ٹرک کے اردگرد جمع رہے۔
اگرحملہ آور ٹرک کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوتاتو پارٹی کی تمام مرکزی قیادت ماری جاتی، ایسا نشترپارک میں ہواتھا جس میں سنی تحریک کی تمام مرکزی قیادت سوائے ایک کےخودکش حملےمیں ماری گئی تھی۔ لہذا ٹریفک کے کئی واقعات کے باوجود حملہ آور ’اہم ٹارگٹ‘ کو نشانہ نہ بناسکے، اس کا سہرا سیکیورٹی پلان اور ٹیم کوجاتاہے جو ماری گئی تھی اور اگرچہ بے نظیر حملے کی توقع کررہی تھیں اور اپنے کارکنان کی موت پر افسردہ تھیں لیکن سیکیورٹی ٹیم نے بہترین کوشش کی اور حملہ آورروں کو دوبارہ اہم ٹارگٹ کو نشانہ بنانے سے روکا۔
بے نظیر اتنی پریشان تھیں کہ حملے چند ہی گھنٹوں بعد وہ جناح ہسپتال پہنچ گئیں اگلی صبح اپنی سیکیورٹی کو بتائے بغیر وہ زخمیوں سے ملیں۔ بعد میں انھیں بتایاگیا کہ انھیں مزید احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ’سیکیورٹی الرٹ‘ ابھی ختم نہیں ہوا۔ پہلی ایف آئی آر بہادرآباد پولیس اسٹیشن میں ریاست کی جانب سےدرج کی گئی۔ دودن بعد بے نظیر نے ایک خط پولیس کو بھیجا جس میں انھوں نے اپنے خدشات سے آگاہ کیا کہ ان کے کچھ سیاسی حریف جن میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف، مرحوم آئی ایس آئی چیف جنرل حمیدگل، اور ان کے سیاسی مخالف چوہدری پرویز الہی شامل ہیں، سےتحقیقات ہونی چاہیئے اور ایک اورایف آئی آر اُن کی شکایت پردرج ہونی چاہیئے۔
پی پی پی کے ہمدردر کچھ سینئر پولیس افسران نے اُن کو مشورہ دیا کہ دوسری ایف آئی آرکیلئے ضد نہ کریں کیونکہ اس ست اُن کے کیس کو نقصان پہنچ سکتاہے۔ لیکن دوسری ایف آئی اربھی درج کرلی گئی۔ ابتدائی طورپر جن لوگوں کے انھوں نے نام لیےتھے اُن سے کبھی تحقیقات نہیں کی گئیں اور پولیس میں اُن کے خط کو سیاسی وجوہات کےاور جذباتی ردِ عمل باعث خط سمجھا گیا۔
افسوس، 18اکتوبرکی تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں کی گئی، حتٰی کہ پی پی پی کے پانچ سالہ دورِاقتدارمیں بھی اورایک ملزم جسے اس کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اسے رہا کر دیا گیا کیونکہ اُس کےخلاف کوئی ثبوت نہیں ملاتھا۔ اس واقعے کے بعد بے نظیر نے اپنی سیکیورٹی ٹیم کو بلایا اور کچھ سینئر پولیس افسران سے گفتگو کی، انھوں نےاپنی ٹیم کی کاوشوں کو سراہا اور شگری کے مشورےکی خاص طور پر تعریف کی۔
حیران کن طور پر کچھ ہفتوں بعد ان کی سیکیورٹی ٹیم بدل دی گئی اور ذوالفقار مرزا اور دیگر کو کہا گیا کہ یہ ہی سیکیورٹی پلان اسلام آباد کی ٹیم کو منتقل کردیں۔27 دسمبر 2007 کے جان لیوا حملےمیں جو ہوا وہ اہم سیکیورٹی اقدام اور ’مشورے‘ کی خلاف ورزی تھی کہ حملہ آور عوامی جلسے کے بعد حملہ کرسکتے ہیں اور اگر ان کی سیکیورٹی کے ذمہ داران کی جانب سے یہ بتا دیا گیا ہوتا کہ ان کے علاقے اور روٹ کی کلیئرنس سےروانہ نہیں ہونا، کون جانتا ہے کہ وہ بچ سکتی تھیں۔
ایک سابق سینئرپولیس افسرجو پی پی پی حکومت کے دوران اعلیٰ عہدے پر رہے، انھوں نے انکشاف کیاکہ بے نظیر اپنی سیکیورٹی کےبارے میں بہت محتاط تھیں اور وہ خود کو منصوبے اور تبدیلیوں سے متعلق باخبر رکھتی تھی۔‘‘
انھوں نے 18اکتوبرکو کافی حد تک مشورے پر عمل کیا۔ لہذا یہ حیران کن تھا کہ کیوں ان کی سیکیورٹی ٹیم کو بدل دیاگیا اور کیوں 27دسمبر کو افضال شگری کے مشورے کو نظرانداز کردیاگیا۔‘‘ یہ دونوں حادثے کئی ہائی پروفائل حل طلب کیسز کی طرح حل طلب راز ہیں۔