• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الحاج طاہر القادری صاحب نے سپریم کورٹ جا کر عزتِ سادات بھی گنوا دی۔الیکشن ملتوی کرانے کی بظاہر ان کی وہ آخری کوشش تھی، اس سے پہلے 23دسمبر2012ء کو لاہور میں اپنے استقبالی جلسے میں انہوں نے انتخابات کے التوا کی بات کی تھی اور پھر 14 جنوری2013ء کا لانگ مارچ بھی، اسی خواہش کا شاخسانہ تھا لیکن سپریم کورٹ نے اپنے13 فروری2013ء کے فیصلے میں یہ کہہ کر طاہر القادری صاحب کی آئین کی شق184تھری کی درخواست خارج کر دی کہ آئین کا آرٹیکل 5پاکستان سے وفاداری کا کہتا ہے،اس میں شک نہیں کہ قادری صاحب سپریم کورٹ میں اپنی نیک نیتی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ثابت نہیں کر سکے کہ ان کے مفادات پر یا ان کے حقوق کو کہاں گزند پہنچی لیکن ایسا وہ تب ثابت کرنے کی کوشش کرتے جب ان کا کوئی نقصان ہوتا، اصل صدمہ تو ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے قادری صاحب کو اس بکھیڑے میں دھکیلا تھا۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا تھا کہ ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ طاہر القادری صاحب کو ”چابی“ کہاں سے دی جا رہی ہے، رحمن ملک اگر یہ بات آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر کرتے تو انہیں وہ خفیہ ہاتھ بھی دکھائی دے جاتا اور اس کا چہرہ ویسے بھی سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کا قادری صاحب کی حمایت میں چند باتیں کرنے سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ پانی کہاں مرتا ہے۔ طاہر القادری نے اپنی درخواست کے خارج ہونے سے ایک دن پہلے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کریں گے لیکن وہ اپنی بات پر قائم نہ رہ سکے اور فیصلہ سنتے ہی آپے سے باہر ہو گئے۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اندر کبھی نہیں رہے اب بھی وہ باہر ہی سے آئے ہیں اور آئین کو اپنے پانچویں آرٹیکل کی روشنی میں یہی گلہ ہے ان سے، لیکن اب کی بار وہ اس قدر آپے سے باہر ہوئے کہ جیب سے تصویریں نکال کے چیف جسٹس صاحب کو دکھانا شروع کر دیں ۔
یہ صورتحال تب پیش آئی جب قادری صاحب کے پاس دلائل نہ رہے۔ صاحب علم تو جانتے ہیں کہ دلائل کا تعلق علم سے ہے جہاں علم کا فقدان ہو گا وہاں تشدد ڈیرے ڈال لیتا ہے۔ اپنے ہاتھ سے اپنے نام کے ساتھ علامہ لکھ دینے سے انسان بقراط نہیں بن سکتا۔ اقبال نے کبھی اپنے آپ کو علامہ نہیں لکھا انہیں قوم نے علامہ تسلیم کیا ہے، لیکن ہمارے ہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو ان لوگوں سے پوچھے کہ تمہیں علامہ کس نے مانا اورشیخ الاسلام کیسے بنے، ہائر ایجوکیشن والے جعلی ڈگریوں کی اسکروٹنی کے ساتھ ساتھ اگرعلاماؤں اور شیخ الاسلاموں کی انکوائری بھی شروع کر دیں تو بہت سے لوگ زمین پر آ جائیں گے۔انتخابات کا التوا صرف قادری صاحب ہی کی خواہش نہیں بلکہ بہت سے اور لوگوں کو بھی انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ ایسی صورتحال ان لوگوں کو درپیش ہے جن کی نظر کے چشمے آخری نمبر تک پہنچے ہوئے ہیں ایسی حالت میں آنکھوں کا معائنہ کرنے والا سامنے بیٹھا ڈاکٹر نظر نہیں آتا تو انتخابات کہاں سے نظر آئینگے!اللہ کے فضل و کرم سے انتخابات ہوں گے اور اپنے وقت پر ہی ہوں گے، اسی میں ملکی مفاد مضمر ہے۔ اٹھارہویں ترمیم جس پر رضا ربانی کو شدید تحفظات ہیں اس میں درپردہ جو کھیل کھیلا گیا وہ یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات الیکشن کمیشن کو دے دیئے گئے ہیں ،جمہوری اصولوں کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کا صرف ایک ووٹ ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کو چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کی ذات پر تو اعتماد ہے لیکن انہیں یہ فکر دامن گیر ہے کہ الیکشن کمیشن میں شامل دیگر چار ممبران جن میں پنجاب سے جسٹس (ر) ریاض کیانی، سندھ سے جسٹس (ر) روشن عیسانی، خیبر پختونخوا سے جسٹس (ر) شہزاد اکبر اور بلوچستان سے جسٹس (ر) فضل الرحمن شامل ہیں۔ قیاس غالب ہے کہ وہ چیف الیکشن کمشنر کے پائے کے نہیں ہیں، اٹھارہویں آئینی ترمیم نمبر78برائے آرٹیکل 215پر بھی وہ پورا نہیں اترتے، حالانکہ چاروں صوبائی الیکشن کمشنر صاحبان کی منظوری یکم جون2011ء کو تمام آئینی تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر دی گئی تھی، حکومت کا یہ موقف بھی بہت واضح ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل آئین کی آرٹیکلز 213/اور 218 کے تحت ہوئی ہے۔ ہوا یوں تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کے وقت سرحد اور بلوچستان پر تو اتفاق تھا مگر سندھ اور پنجاب پر حکومت اور اپوزیشن کا باہمی اختلاف تھا جس کے لئے پارلیمانی کمیٹی کو فیصلہ کرنا پڑا تھا، پارلیمانی کمیٹی میں بارہ ممبر ہوتے ہیں چھ حکومت کے اور چھ حزب اختلاف کے بعض سیاسی حلقوں کو اسی ایک بات پر شک ہے کہ کہیں اٹھارہویں ترمیم میں بالا بالا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی ملی بھگت شامل نہ ہو کہ چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات الیکشن کمیشن کو تفویض کر دیئے گئے ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں اختلافات کی صورت میں نگران حکومت کا حتمی فیصلہ کرے، الیکشن کمیشن پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ذاتی شنوائی (Hearing) نہیں ہوئی اس پر وفاقی وزیر قانون کا موقف ہے چونکہ پنجاب اور سندھ پر اتفاق نہیں تھا اس لئے فیصلہ کرتے وقت پارلیمانی کمیٹی نے ذاتی شنوائی نہیں کی جبکہ سرحد اور بلوچستان پر حکومت اور اپوزیشن متفق تھے اس لئے تین تین ناموں پر فرداً فرداً Hearingہوئی تھی۔
بہر طور یہ قانونی پیچیدگیاں ہیں مگر آزاد میڈیا نے لوگوں کو اتنا باخبر کر دیا ہے کہ عام آدمی بھی ہر عمل پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ایسے میں جب عدالت عظمیٰ سے لیکر نیچے تک لوگوں کو انصاف مل رہا ہو تو پھر کسی محکمے پر بلاوجہ انگلی اٹھانا چنداں موزوں نہیں۔ انتخابات قریب ہیں، عدلیہ آزاد ہے، فوج غیر جانبدار ہے ایسے میں کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ الیکشن کے التوا کی بات کرے۔
کالم کی آخری سطریں لکھ رہا تھا تو الحاج طاہر القادری صاحب کا خصوصی SMSموصول ہوا جس میں انہوں نے فرمایا کہ ”سپریم کورٹ کے فیصلے سے اربوں ڈالر کا سرمایہ بھیجنے والے دہری شہریت کے حامل پاکستانی تیسرے درجے کے شہری قرار پائے جبکہ اربوں ڈالر بیرون ملک بھیجنے والے لٹیرے اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، مجھے الیکشن کی نہیں بلکہ ملک و قوم کے مستقبل کی فکر ہے“۔
میں ذاتی طور پر قادری صاحب سے کہوں گا کہ وہ ریاست کی آڑ میں سیاست نہ کریں ، اگر سیاست کرنی ہے تو پارٹی رجسٹرڈ کرائیں، انتخابات میں اتریں ،دہری شہریت پر لات ماریں اور سکون و اطمینان سے قوم و ملک کی خدمت کریں وگرنہ لاہور ہائی کورٹ کے ٹربیونل کی ہدایت کے مطابق کسی ماہر نفسیات سے رجوع کریں !!
تازہ ترین