25سال قبل دنیا کے تقریباً 200 ممالک سے تعلق رکھنے والے 30ہزارکے قریب نمائندے خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق میں شامل کرنے کا عزم لیے چوتھی عالمی خواتین کانفرنس میں شرکت کی غرض سے چین کے دارالحکومت بیجنگ پہنچے۔ کانفرنس کا اختتام (جو کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے تھا) بیجنگ کو بطور پلیٹ فارم استعمال کرنے پر ہوا، پھر اگلے چند سالوں کے دوران دنیا نے دیکھا کہ خواتین کے جنسی وتولیدی صحت کے حقوق سے لے کر مردوں کے مساوی تنخواہوں تک جیسی بے شمار تحریکیں زور پکڑتی چلی گئیں۔
آج ان تحریکوں کا دائرہ کار مزید وسیع ہوچکا ہے، جن میںکم عمری میں بچیوں کی شادی ، تعلیم میں عدم مساوات، صنفی تشدد،خود اعتمادی کی کمی جیسے مسائل بھی شامل ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بچیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں سے ایک بڑ مسئلہ کم عمری میں شادی ہے۔
دور جدید کا موازنہ ماضی سے کیا جائے تو حالات بہت تبدیل ہوگئے ہیں، آج غیر تعلیم یافتہ معاشروں میں بھی بچیوں کی تعلیم وتربیت پر توجہ دی جارہی ہے۔ آج کی لڑکیاں محرومیوں کی زنجیروں میں جکڑی ہونے کے بجائے معاشرے میں اعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل کر رہی ہیں۔
قدامت پسند ذہنوں کے مالک افراد بھی اس بات کا اعتراف کرنے لگے ہیں کہ ایک پڑھی لکھی باشعو ر لڑکی نہ صرف گھر میں بلکہ خاندان میں اپنے آپ سے منسلک ہر رشتے کو بڑی خوبصورتی سے نبھا رہی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں خواہ وہ سیاسی، ادبی، کاروباری ، صحت، تعلیم، کھیل یا کوئی بھی شعبہ ہو، اپنے ملک کا نام روشن کررہی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ نازک مزاج سمجھی جانے والی بیٹیاں اب زندگی کے ہر میدان میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑتی پھر رہی ہیں۔
جس طرح ایک عمارت کی تعمیر اگرمضبوط اور پائیدار بنیادوں پر کی جائے تووہ موسمی تغیرات اور ہر قسم کے حادثات برداشت کرنے کے بعد بھی اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے، بالکل اسی طرح اگر بچوں کی تربیت بھی بہترین خطوط پر کی جائے تویہ بچے بڑے ہوکر مضبوط اور بااختیار شخصیت کے مالک بنتے ہیں۔
بچی کو بااختیار اور باشعور لڑکی بنانے میں والدین کا کردار سب سےزیادہ اہمیت کا حامل ہوتاہے۔ ان کی حفاظت و تربیت کے ساتھ ساتھ انھیں بااختیار بنانے کے لیے والدین کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، جس کے لیے چند خاص نکات پر نظر رکھنا بے حد اہم ہے۔
٭ایک بچی اس وقت ہی بااختیار ہوسکتی ہےجب اس کے اردگرد کا ماحول بچپن سے ہی ایسا ہو، جس میں اس کی تربیت صنفی امتیاز سے بالا تر ہو کر کی جائے۔ والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے بچیوں کی مہارتوں اور صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے انھیں آگے بڑھنے کی جانب مائل کریں تاکہ وہ اپنی شخصیت سے متعلق ظاہری اور باطنی دونوں قسم کا اعتماد حاصل کرسکیں۔
٭اکثر والدین بچپن ہی سے بچے بچیوں میں ایک خاص فرق پیدا کردیتے ہیں جیسے کہ بیٹوں کے لیے مخصوص رنگ اور مخصوص کھلونے اور بیٹیوں کے علیحدہ رنگ اور علیحدہ کھلونے۔ ان کے نزدیک بیٹی کے لیے جہاز خریدنا معیوب جبکہ گڑیا خریدنا زیادہ مناسب ہوتا ہے لیکن عصر حاضر میں آپ کی یہ سوچ بچیوں کی ذہنی نشوونماپروان چڑھنے میں رکاوٹ پیدا کرسکتی ہے۔ آج نہ صرف بیٹیاں مریم مختار بن کر شہادت کے درجے پر فائز ہوچکی ہیں بلکہ ملیحہ لودھی کے روپ میں بیرون ملک جاکر سفارت کاری کے فرائض بھی انجام دے رہی ہیں۔
٭والدین بیٹیوں کی تربیت سے متعلق بعض اوقات زیادہ حساس ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا گھر میں بیٹوں کے لیے الگ اور بیٹیوں کے لیے الگ قوانین وضوابط ترتیب دیے جاتے ہیں۔ بچپن میںبیٹے اگر جھگڑا کریں تو عموماً انھیں ڈانٹا نہیں جاتا لیکن اگر بیٹیاں جھگڑا کریں یاصوفے پر جمپ لگانا شروع کردیں تو فوراً روک ٹوک شروع ہوجاتی ہے۔
بچیوں کے لیے کھانے پینے کے آداب، گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کی ذمہ داری اور سونے جاگنے کے اوقات مختص کردیے جاتے ہیں جبکہ لڑکوں کو ڈھیل دے دی جاتی ہے۔ اگر والدین چاہتے ہیں کہ وہ بیٹیوں کی پرورش کرتےہوئے انھیں بااختیار بنائیں تو بچوں کے لیے مختلف اصول وضوابط مرتب کرنے کے بجائے یکساں قوانین ترتیب دیے جائیں۔ انھیں وہ تمام سرگرمیاں (ایکٹیوٹیز) کرنے کی اجازت دی جائے، جن کی بیٹوں کو اجازت دی جاتی ہے ۔
٭سب سے اہم مرحلہ بچیوں کی تعلیم و تربیت کاہے۔ اگرچہ پاکستانی معاشرے میں اب لوگ اس بات کا شعور رکھنے لگے ہیں کہ ایک بیٹی کی تعلیم کے اثرات صرف اس کی ذات تک نہیں رہتے بلکہ نسلوں کو سنوارنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا اب معیوب نہیں سمجھا جاتا، تاہم اس کے باوجود، آج بھی اکثر گھرانے بچیوں کو اعلیٰ اور معیاری تعلیم دینے کے حوالے سے کشمکش کا شکار ہیں۔ بطور والدین یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ تعلیم حاصل کرنا بیٹے کی طرح بیٹی کا بھی بنیادی حق ہے۔ ایک پڑھی لکھی لڑکی کسی عام لڑکی کے مقابلے میں خود کو زیادہ پُراعتماد اور خود مختار سمجھتی ہے۔ جو رقم آپ بیٹیوں کی تعلیم پر خرچ کریں گے، وہ دراصل قوم کےلیے سرمایہ کاری ہوگی۔
٭دنیا بھر میں خواتین انٹرپرینیورز کی تعداد میں ہوتا اضافہ انھیں معاشی طور پر مستحکم کرنے میں کافی مددگارثابت ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین، برازیل،روس اور جنوبی افریقہ کے تیس فیصد کاروبار ی اداروں پر حکمرانی خواتین کی ہی ہے۔
آپ کو بھی اپنی بیٹیوں کی صلاحیتوں اور مہارتوں پر اعتماد کااظہار کرتے ہوئے انھیں آگے بڑھنے کا موقع دینا ہوگا۔ ان کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے ان کے بزنس سیٹ اَپ میں ان کی مدد کرنا ہوگی، بالکل ایسی ہی جیسے ایک بیٹے کے کاروبار کی کامیابی کے لیے اس کا ساتھ دیا جاتا ہے۔
٭ماہرین کے مطابق،بچپن میں بچوں کے لیے استعمال کیے جانے والے مخصوص الفاظ ان کی ذہنی سوچ پروان چڑھاتے ہیں۔ بچیوں کو شہزادی اور سنڈریلا جیسے القابات دینے سے گریز کریں، اس کے بجائے انھیں اسمارٹ اور انٹیلی جنٹ (ذہین) جیسے القابات دیں، جب وہ اپنی میز یا الماری ٹھیک کرلیں تو ان کے لیے تعریفی کلمات ادا کریں۔ ا پنی بیٹی کی تعریف کرنے کے لیے الفاظ کا ذخیرہ وسیع کریں اور اس میں تخلیقی، طاقتور، بہادر، رحمدل، پُراعتماد اور آرٹسٹک جیسے الفاظ شامل کریں۔