• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت ہو یا حزب اختلاف اس پر متفق ہیں کہ روشنیوں کے شہر عروس البلاد کراچی میں 80 کی درمیانی دہائی سےجن مسائل نے سر اُٹھایا وہ بجائے قابو کے بڑھتے ہی رہے۔

غریب پرور شہر میں سوائے آبادی کے اضافے کے ہر سہولت وقت گزرنے کے ساتھ کم ہوتی گئی ہے۔ وہ کھیل کا میدان ہو یا پانی، فٹ پاتھ ہو سڑکیں ہر چیز کمرشل ہوکر برائے فروخت ہوئیں۔

لوگ اگر اپنے حافظے پر زور ڈالیں تو انہیں یاد آئے گا کہ آج سے تین عشروں قبل کے مکین نہ پانی خریدتے تھے، متعدد میدان بچوں نوجوانوں کے لیے مفت دستیاب تھے، چوڑی فٹ پاتھ صرف چلنےکےلیے اور سڑکیں چارجڈ پارکنگ کی بلا سے آزاد تھیں۔

آج کی اکثر نوجوان نسل یہ سن کر حیران ہی ہوتی ہیں اور یہ سب کچھ خراب امن و امان کی صورتحال کے سبب ہوا۔ اور شہری کئی طرح کے ٹیکس دینے کے باوجود جو بنیادی سہولتیں ان کا حق تھیں ان کی مزید قیمت دینے پر مجبور ہوئے۔

آج آپ شہر کے کسی بازار، اسپتال اور شاپنگ سینٹر میں جائیں گے۔ ابھی سنبھل ہی نہ پائیں گے کہ کوئی شخص آپ کی گاڑی یا موٹر سائیکل کی جانب آکر پارکنگ کے پیسے مانگے گا اورآپ چاہتے نہ چاہتے اسے دینے پر مجبور ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق شہر بھر میں 200سے زائد جگہوں پر چارجڈ پارکنگ فیس وصول کی جارہی ہے، جس میں کے ایم سی ،ڈی ایم سیز، یونین کونسل کنٹونمنٹ بورڈ سمیت دیگر اداروں اور بعض مقامات پراس منافع بخش کام میں بااثر مافیا ملوث ہیں۔

دوسری طرف یہ چارجڈ پارکنگ شہر کی مصروف شاہراہوں پر ٹریفک جام کا سبب بنتے نظر آتے ہیں۔جس کی وجہ زیادہ کمانے کے چکر میں ایک لین سے زیادہ گاڑیاں پارک ہونا ہے۔

1993 میں جاری ٹریفک انجیئرنگ بیورو کی سروے رپورٹ

حکومتی ہدایت پر اپریل 1993 میں ٹریفک انجیئرنگ بیورو (کے ڈی اے) نے اپنا ایک سروے جاری کیا جس کے مطابق شہر میں گاڑیوں کی تعداد میں سالانہ دس فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ جس کے باعث آلودگی اور پارکنگ کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔

اعداد وشمار کے مطابق دسمبر1992 تک رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد سات لاکھ 79ہزار 251 تھی۔گاڑیوں میں بے تحاشا اضافے کے باعث ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے اور پارکنگ کی جگہ روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔ صرف صدر میں آٹھ گھنٹے میں 22ہزار 724 کاریں روزانہ پارک ہوتی ہیں۔

سروے کے مطابق صدر کے علاقے میں 17ہزار 121 کاریں ایک گھنٹے کےلیے 2ہزار 291 دو گھنٹے کےلیے ایک ہزار  795دو سے چار گھنٹے کے لیے ایک ہزار ایک سو سترہ چارگھنٹے یا اس سے زائد عرصے کےلیے پارک ہوتی ہیں اسی طرح یہاں 11ہزار 141موٹر سائیکلیں روزانہ پارک ہوتی ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کےلیے چارجڈ پارکنگ اسکیم کا آغاز کیا گیا۔

صوبائی حکومت کا فیصلہ

صوبے میں وزیراعلیٰ مظفر حسین شاہ کے زیرقیادت ایم کیو ایم کی مخلوط صوبائی حکومت قائم تھی۔ بڑھتے ٹریفک اور مصروف شاہراہوں کو ٹریفک جام سے محفوظ کرنے کےلیے تین اپریل 1993 کویہ بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے ایک اجلاس میں عوام کی دشواری کے پیش نظر شہر کے بعض علاقوں میں پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر چارجڈ پارکنگ کی منطوری دی ہے۔

یہ اسکیم بلدیہ کراچی کی ایجنسی کے طور پر سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی چلائے گی اور اس پر عمل درآمد بلدیہ کراچی کے قواعد و ضوابط کے تحت ہوگا۔ اس اسکیم کوعوام میں مقبول کرنےکےلیے بلدیہ سے مشورہ لیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ اس اسکیم کے تحت جمع ہونے والی رقم ٹریفک کے نظام میں اور سڑکوں کی بہتری جیسی اسکیموں پر خرچ کی جائے گی جبکہ اس اسکیم کو مستحکم بنیادوں پر چلانے کےلیے حکومت متعلقہ اداروں کی ہر ممکن مدد کرے گی۔

اس موقع پر صوبائی کابینہ کے ارکان کے ہمراہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری بلدیات، کمشنر کراچی، ڈی آئی جی کراچی، ڈی آئی جی ٹریفک ایڈمسٹریٹر بلدیہ، ڈی جی کے ڈی اے اور جوائنٹ چیف سی پی ایل سی ناظم ایف حاجی نے بھی شرکت کی تھی۔

ناظم ایف حاجی نے چارجڈ پارکنگ اسکیم کی تفصیلات اور اہم نکات سے وزیراعلیٰ سندھ کو آگاہ کیا تھا۔

صدر بنا پاکستان اور کراچی کی پہلی چارجڈ پارکنگ

جمعرات 22 اپریل 1993 سے پاکستان کی تاریخ کی پہلی چارجڈ پارکنگ کا آغاز ہوا۔ کراچی کا مصروف تجارتی مرکز صدر میں سر آغاخان روڈ اور زیب النسا اسٹریٹ پر چارجڈ پارکنگ شروع کردی گئی۔ اس سے دو روز قبل ایڈمسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی سید مسعود عالم رضوی نے چیئرمین سی پی ایل سی ناظم ایف حاجی اورڈائریکٹر ٹریفک انجیئرنگ بیورو ملک ظہیر الاسلام کے ہمراہ خبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابتد ا میں یہ اسکیم  زیب النسا اسٹریٹ اور عبداللہ ہارون روڈ پر شروع کی جارہی ہے جبکہ ایک ہفتے میں طارق روڈ کو بھی شامل کرلیا جائے گا۔

چارجڈ پارکنگ کا دورانیہ روزانہ 12گھنٹے صبح آٹھ سے شب آٹھ تک رکھا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے وردی میں ملبوس دو سو تربیت یافتہ اسٹاف مقرر کیے جارہے ہیں۔ پارکنگ فیس کاروں پر پہلے دو گھنٹوں کے لیے پانچ اور اس کے بعد گھنٹہ10روپے موٹر سائیکلوں پر پہلے دو گھنٹوں کےلیے ایک روپیہ جبکہ بقایامدت کےلیے تین روپے مقررکیے گئے۔

علاقے مکینوں اور دکانداروں کو بلامعاوضہ گاڑیاں پارک کرنے کی اجازت ہے۔ اس کام کےلیے دوسال کےلیے ایجنٹ مقرر کیے گئے ابتدائی اخراجات کے سلسلہ میں دولاکھ روپے مختض کیے گئے۔ اس موقع پربتایا گیا کہ آن ڈیوٹی سرکاری گاڑی کےعلاوہ کوئی گاڑی چارجڈ پارکنگ سے مستثنیٰ نہیں ہوگی۔

کامیابی کی صورت میں ان کا کہنا تھا کہ ان پوائنٹس سے دولاکھ چالیس ہزار روپے ماہانہ آمدنی کی توقع ہے۔ تاہم صر ف 8ماہ بعد سال کے آخر تک اس مد میں یومیہ بارہ لاکھ آمدنی ریکارڈ کی گئی تھی۔

ردعمل

پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کی جانب سے اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا نائب امیر جماعت اسلامی پروفیسر غفور احمد نے پارکنگ کی فیس کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارکنگ کی سہولت فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے ملک بھر میں کہیں پارکنگ فیس نہیں لی جاتی صرف کراچی میں کیوں شہری پہلے ہی بھاری ٹیکسوں کی ادائیگی کررہے ہیں۔

تازہ ترین