عمران خان کی الیکشن میں کامیابی مولانا فضل الرحمٰن کو پہلے دن سے نہیں بھائی اور وہ اُسی دن سے پی ٹی آئی حکومت کو گرانے میں لگ گئے۔ وہ اپوزیشن کو باور کراتے رہے کہ اگر ہم سب ایک نہ ہوئے تو عمران خان سب کا کچھا چٹھا کھول کر سب کو جیل بھیج کر رہے گا۔ نواز شریف تو سمجھ گئے مگر شہباز شریف ان کے خلاف تھے کہ ہر حکومت نے 5سال گزارنے ہیں۔ پہلی رائے پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری کی بھی تھی مگر مولانا فضل الرحمٰن پہلی مرتبہ اسمبلیوں سے باہر تھے۔ مراعات ختم ہو چکی تھیں، گاڑیاں اور بنگلے واگزار کرا لئے گئے تھے اب صرف ایک کام رہ جاتا تھا کہ کس طرح ہم اسمبلیوں میں جائیں۔ پھر مولانا ایک سال تک دن رات لگے رہے کہ کسی طرح اس حکومت کو گرایا جائے۔ جب کسی نے کھل کر ساتھ نہیں دیا تو مولانا نے اللہ کا نام لے کر تنہا یہ بیڑا اٹھایا اور آزادی مارچ کا اعلان کر دیا۔ لیبل ختم نبوت اور یہودی لابی کا لگایا اور اسلام آباد میں اُسی مقام پر جہاں ماضی میں عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ دھرنا دیا تھا۔ جے یو آئی نے اسی جگہ کا انتخاب کرکے پورے میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ مریم نواز اور نواز شریف تو تیار بیٹھے تھے، انہوںنے مولانا کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا مگر اس دھرنے میں مسلم لیگ (ن) دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک دھڑا نواز شریف کے موقف کی حمایت کر رہاہے،دوسرا دھڑا شہباز شریف کی قیادت میں اس دھرنے سے دور بھاگنے میں ہی عافیت سمجھ کر مخالفت میں بیان بازی کرتا رہا۔ عوام حیران ہیں ملک کی معیشت بیٹھ رہی ہے، یہ کیسے قومی لیڈر ہیں جو عوام کی بھلائی اور ملک کی معیشت کی بات نہیں کر رہے ہیں، غربت، جہالت سے عوام کو نکالنے کی بات نہیں کر رہے اور دھرنے میں شریک ہونے پر اصرار کر رہے اور اپنے مدرسوں سے معصوم طلبا کو استعمال کرکے قانون سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو دھمکیاں دے کر ان سے بارگین کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف مولانا فضل الرحمٰن عمران خان کو دھمکا رہے ہیں تو دوسری طرف اب وہ دبے لفظوں میں کسی اور کو بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ پی ٹی آئی حکومت سے ہاتھ اٹھا لیں۔ اب مولانا صاحب نے حال ہی میں اسفندیار ولی جو خود بھی اسمبلی سے باہر بیٹھے ہیں، کو بھی دھرنے میں نہ صرف شامل کر لیا بلکہ اپنا قائم مقام بھی نامزد کر دیا ہے۔ اگر حکومت مولانا کو جیل بھجوائے تو اسفندیار ولی جلوس کی قیادت کریں گے۔ دوسری طرف کے پی حکومت نے مولانا صاحب پر واضح کر دیا ہے کہ کے پی سے کوئی جلوس نہیں گزرنے دیں گے۔ یقیناً صورتحال خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ اسلحہ کا بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ لاٹھی بردارفورس تو مولانا صاحب نے پہلے سے بنا رکھی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک عوامی جلسہ میں اس کی جھلک بھی دکھائی گئی ۔سیاسی حدت میں حکومتی کارندے صرف بیان بازی میں لگے ہوئے ہیں، ایسے میں فواد چوہدری نے حسبِ عادت یہ بھیانک انکشاف کر ڈالا ہے کہ حکومت 400محکمے بند کرنے پر مجبور ہے کہ ہمارے پاس تنخواہیں دینے کے لئے فنڈ نہیں ہیں۔ کہاں آنے سے پہلے ایک کروڑ نوکریاں، 50لاکھ مکانات کے نعرے اور اس پر ووٹ لینے والی پی ٹی آئی اب نوکریاں دینے کے بجائے نوکریاں ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ بھی ایک نیا یوٹرن کہا جا سکتا ہے۔ اگر چہ پی ٹی آئی کے دیگر افراد اس کی تردید کرتے نظر آرہے ہیں۔ نجانے عمران خان فواد چوہدری جیسے لوگوں کو اب تک صرف اہم عہدوں سے ہٹانے تک کیوں محدود ہیں۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ اُن سب کو منہ بند رکھنے کا مشورہ دیں جو پارٹی کا مذاق اڑواتے ہیں۔ عوام حیران ہیں کہ عمران خان نہ تو تاجر برادری سے مذاکرات کرکے ان کو سڑکوں پر آنے سے روک رہے ہیں، نہ مولانا کے دھرنے کو سنجیدگی سے لے کر اسلام آباد کو سیاسی اکھاڑہ بننے سے روکنے کیلئے کچھ کر رہے ہیں۔ اب تاجر تنظیموں نے بھی 29اور 30اکتوبر کو ملک گیر شٹر ڈائون کا اعلان کر دیا ہے۔ تاجر تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ اب فیصلہ سڑکوں پر ہوگا، ہم ٹیکس چور نہیں ہیں۔ ایف بی آر ٹیکس لینا نہیں چاہتا۔ تاجر تنظیموں نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ ہمارا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ سے کوئی تعلق نہیں، ہم 31اکتوبر کو تمام کاروبار، دکانیں، فیکٹریاں کھلی رکھیں گے اور اگر حکومت کو کوئی شک ہے تو وہ ہمارے مطالبات مان لے، ہم ہڑتال کا اعلان واپس لے لیں گے۔ آزادی مارچ کے ساتھ کیا ہونا ہے، اس کا تو ابھی تک پتا نہیں لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی پارلیمنٹ سے محرومی کا بدلہ عمران خان اور ان کے وزراء کے ہاتھوں کے طوطے اڑا کر لیا ہے۔ عمران خان نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ اپوزیشن کرنا بہت مشکل کام ہے جبکہ حکومت کرنا بہت آسان ہے۔ اس وقت تک عمران خان نے صرف دھرنے دیئے تھے، دھرنے بھگتائے نہیں تھے۔ ایک محاورے کے مطابق تب تک خان صاحب نے اڑتی مکھی کو پھنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ دھرنا اور خاص طور پر لمبا دھرنا دینا بذاتِ خود مشکل کام تھا مگر اب اندازہ ہو رہا ہوگا کہ دھرنا بھگتنا کتنا مشکل کام ہے۔ ابھی تو خیر آزادی مارچ شروع بھی نہیں ہوا اور حکومتی خیمے کی طنابیں ڈھیلی ہوتی جا رہی ہیں، ابھی تو آگے کے مراحل باقی ہیں۔ حکومت کی صورتحال بالکل ویسے ہی ہے، اندر سے ڈری ہوئی ہے اور اوپر سے بہادری دکھا رہی اور گھبرا بھی رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے جیل جاکر وہ رونق نہیں لگائی جو مولانا فضل الرحمٰن نے لگا رکھی ہے۔ حکومت کے ڈر کی یہ صورتحال ہے کہ نیشنل گیمز جو 10سال بعد پشاور میں 27اکتوبر کو ہونا تھے، ان کو پھر ایک مرتبہ ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اب یہ گیمز 9نومبر سے 14نومبر تک ہوں گے۔