اگر یہ کہا جائے کہ جس طرح نائن الیون نے عالم اسلام کے حالات و معاملات کو بدل کے رکھ دیا تھا (اور جس کا پیدا کردہ زوال اور انتشار تا حال جاری ہے) عین اسی طرح دو ماہ قبل 5اگست کو مقبوضہ کشمیر کو مدغم کر لینے کے بھارتی اقدام نے وہاں کے باشندوں کی زندگیوں پہ گہرا اور نہایت بُرا اثر ڈالا ہے، تو یہ ہرگز غلط نہ ہوگا۔ اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ اہم اور نہایت تکیلف دہ امر انسانی حقوق کی شدید ترین پامالی کا معاملہ ہے۔ بھارت جواباً ایسے الزامات پاکستان پہ لگا دیتا ہے یوں دونوں طرف کے نیوکلیئر ممالک ایک دوسرے کو لعن طعن کر رہے ہیں اور اگر ان کے درمیان یہ جھاڑ جھپاڑ یونہی آگے بڑھتی رہی تو اس خطے کو ماضی کے پومپیائی شہر جیسا خاکستر اور جھلسا ہوا تشخص پا لینے سے روکنا ناممکن ہو جائے گا۔ میں اس کھلے خط کے ذریعے بھارت کے نمایاں ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور اہلِ فکر و نظر لوگوں سے مخاطب ہوں اور ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ خود کو اس اہم انسانی مسئلے سے ہرگز لاتعلق نہ کریں کیونکہ کسی بھی زبان کے علم و ادب کا بنیادی محور انسان ہے حتیٰ کہ ہر مذہب کا خاص و مرکزی موضوع بھی انسان ہی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کافی عرصے سے اس خطے کے اہلِ علم و ادب کی تؤجہ اس مشترکہ مرکز و محور سے ہٹ چکی ہے اور ہم نے انسانیت کو بھلا دیا ہے اور بالخصوص گزشتہ چند ماہ سے کشمیر میں بہتے لہو نے ہمیں یا تو بے حس بنا دیا ہے یا پھر انسان کے دکھ درد کو بھی سیاست کی آنکھ سے دیکھنے کا عادی بنا دیا ہے لیکن آخر کب تک؟ کب تک ہم یونہی آنکھیں بند کیے بیٹھے رہیں گے۔ بلاشبہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی اس مجرمانہ غفلت کی تلافی کریں اور اس کے لیے ہمیں پہلے اپنے ہر سیاسی و ریاستی معاملے کو ایک طرف رکھنا ہوگا اور انسان اور انسانیت کے حوالے کو ہر دیگر پہلو پہ فوقیت دیتے ہوئے کشمیر کے معاملات پہ اسی نسبت سے ازخود ایک مشترکہ پیشرفت کرنا ضروری بلکہ ناگزیر ہو چلی ہے اور اس کی عملی صورت یہ ہے کہ ہم پہل کرتے ہیں اور پاکستان کے اہلِ ادب اور صاحبانِ فکر و نظر کی جانب سے بھارت کے چنیدہ اور جانے مانے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور مختلف شعبوں کے معروف صاحبانِ علم کے ایک وفد کو بڑی خوشدلی سے پاکستان آنے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس سلسلے میں ہماری حکوت اور سفارتخانے سے آپ کو خوش آمدید کہا جائے گا اور آپ یہاں پہنچ کر بالکل فول پروف طریقے سے اپنی مرضی و اطمینان کے مطابق آزاد کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیجیے، وہاں کے باشندوں سے ملیے اور آزاد کشمیر کے حالات اور روز مرہ زندگی کو بچشمِ خود ملاحظہ کیجیے۔ آپ کے جو بھی محسوسات و مشاہدات ہوں اور صورتحال کی بہتری کی بابت جو بھی تجاویز ہوں ان سے دونوں ملکوں کے عوام بلکہ تمام دنیا کو بروقت آگاہ و باخبر کیجیے۔ پھر اسی طرح جوابی خیر سگالی کے طور پہ یہاں سے بھی معروف اہلِ ادب و صحافت و صاحبانِ فکر و نظر پہ مشتمل وفد کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کروائیے اور ان کے مشاہدات و تاثرات اور تجاویز سے دنیا کو آگاہ کرنے کا برابر کا موقع فراہم کیجیے۔
میں نے یہ بات نامور کالم نگار، ادیب، شاعر اور مزاح نگار جناب عطاء الحق قاسمی صاحب کے سامنے رکھی تھی اور انہیں یہ تجویز بہت پسند آئی تھی تاہم اگر کسی وجہ سے میری اس تجویز یا پیشکش سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکتا ہو تو میرے پاس اس کے متبادل دوسری تجویز یہ ہے کہ بھارت کے شعبۂ عدل کے سابق مگر نامور وابستگان کے وفد کو یہاں بھیجا جائے جس میں بطور رکن شامل کچھ نیک نام جج یہاں آکر پاکستانی کشمیر کا مطالعاتی و تجزیاتی دورہ کریں اور اسی طرح پاکستان کے چند جانے مانے نیک نام ججوں کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کرایا جائے۔ واضح رہے کہ میں سپریم کورٹ کے سابق اور دبنگ جج جسٹس وجیہ الدین احمد کا مشیر بھی ہوں کہ جنہوں نے آمر صدر مشرف کے مارشل لاء کا حلف آٹھانے سے انکار کر دیا تھا اور گھر بیٹھ رہے تھے۔ اسی طرح کچھ منصف اور بھی ہیں اگر آپ کی طرف سے مثبت اشارہ ملے تو ان حضرات سے گزارش کی جا سکتی ہے کہ وہ اس وفد کا حصہ بنیں اور اپنے ہی جیسے دبنگ اور اصول پسند اہلِ قانون کے وفد کی تشکیل کی ضمن میں اپنا مثبت کردار ادا کریں اور صورتحال کی بہتری کے لیے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کرکے قانونی طور پہ قابل عمل تجاویز دیں اور یوں قانونی رخ سے اس صورتحال کی بہتری کی مد میں قابل قبول راہ عمل تجویز کریں۔ میرا خیال بلکہ محکم رائے یہ ہے کہ اسی طور پہ ہم انسان اور انسانیت کے تئیں اپنی آفاقی ذمہ داریوں کو بطریق پورا کر سکیں گے اور یوں انسانیت کے احساس اور اس کی حقیقی خدمت کا حق بطریق احسن ادا کر سکیں گے۔