• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال:اگر کوئی عادی شرابی ،زانی شخص مرجاتاہے توکیا اُس کی نمازِ جنازہ پڑھائی جائے گی اور ایسے شخص کی مسجد کا امام نمازِ جنازہ پڑھائے یا نہیں؟ (کاظم ، کراچی)

جواب: ہرمسلمان خواہ وہ کیساہی گنہگار اور مرتکبِ کبائر ہو ،اُس کی نمازِ جنازہ پڑھائی جائے گی ۔حدیث ِپاک میں ہے :ترجمہ:’’تم پر مسلمان کی نمازِ جنازہ فرض (کفایہ)ہے خواہ وہ نیک ہو یا بدکار ،اگرچہ کبائر(گناہ) کا مرتکب ہواہو،(سُنن ابوداؤد:2525)‘‘۔علامہ علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ ہرمسلمان کی نمازِ جنازہ فرض ہے ،سوائے چار کے :

(۱) امیر المسلمین کاباغی ،

(۲)ڈاکو،اِن کو نہ غسل دیاجائے گا اور نہ اُن پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی ۔ جبکہ یہ لڑائی میں مارے گئے ہوں اوراگر اُس کے بعد مرگئے تو اُن پر نمازجنازہ پڑھی جائے گی۔اور اِسی طرح جو براہِ عصبیت (لڑتے ہوئے) مارے گئے ہوں،

(۳)اسی طرح رات کو شہر میں لوٹ مار کرنے والا،گلا دباکر مارنے والا۔۔۔

(۴) اپنے والدین میں سے کسی کو قتل کرنے والا، ’’نہرالفائق‘‘ میں اُسے بھی باغیوں میں شمارکیاہے ،(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد3،ص:99-101)‘‘۔

اگر زجر کے لئے اکابرعلماء وخطباء خود نمازِ جنازہ نہ پڑھائیں ،دوسروں سے پڑھوادیں تو کوئی حرج نہیں ۔امام احمد رضاقادری ؒ سے بے نمازی کی نمازِ جنازہ کے متعلق پوچھا گیا توآپ جواب میں لکھتے ہیں: ’’ مسلمان اگرچہ بے نمازی ہو، اس کے جنازے کی نماز مسلمانوں پر فرض ہے ۔ اگر کوئی نہ پڑھے گا، جتنوں کو خبر ہوسب گنہگار وتارکِ فرض رہیں گے ۔

ہاں اگر زجر کے لئے علماء خود نہ پڑھیں، دوسروں سے پڑھوادیںتو بے جا نہیں اوراگر اُن کے نہ پڑھنے سے اوربھی کوئی نہ پڑھے یا اُن کو بھی منع کریں تویہ علماء بھی مستحقِّ عذاب ِنار ہوں گے ،بلکہ جُہَّال سے زیادہ۔(فتاویٰ رضویہ ، جلد9 ص:162)‘‘۔

تازہ ترین