(گزشتہ سے پیوستہ)
ابھی روڑکی کی دو زیارت گاہیں دیکھنی باقی تھیں۔ حضرت علائو الدین علی احمد صابر کی آخری آرام گاہ کلیر شریف اور میری چہیتی درس گاہ، گورنمنٹ ہائی اسکول روڑکی۔ میرے نزدیک دونوں ہی مقدس تھیں اور دونوں ہی سے میرا جذباتی لگاؤ تھا۔ صابر صاحب کا مقبرہ میرے شہر سے سات کلومیٹر دور ہردوار کی جانب اور ہماری شاندار نہر کے کنارے ہے جسے دلّی کے افغان حکمراں ابراہیم لودھی نے تعمیر کرایا تھا، اب ہندو، مسلمان، سکھ اور دوسرے عقیدوں والے کھنچے کھنچے کلیر آتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اس درگاہ سے فیض پاتے ہیں۔
میرے اس زیارت کے اشتیاق میں ایک اور غرض چھپی تھی۔ میں سطح زمین سے بھی اونچی گنگا سے نکلنے والی نہر کے کنارے کنارے چل کر اس کا نظارہ کرنا چاہتا تھا۔ انگریز انجینئر ٹامس کاٹلی نے اس نہر کو بڑے پیار سے تراشا تھا۔ دونوں کناروں پر سیڑھیاں بنائی تھیں اور منڈیر اٹھائی تھی، ان سب پر گلابی رنگ کا پلاسٹر کیا گیا تھا، اب وہ رنگ ماند پڑ چکا تھا۔ پھر میں نے کلیر سے آگے جاکر ہیڈ ورکس دیکھے، کہیں پانی ہی نہیں تھا، کہیں کسی نے نہر کی سطح پر وہ بیلیں ڈال دی ہیں جو پھیل کر پانی کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ کہیں نہر کے پہلو میں نئی نہر کھودی گئی تھی تاکہ پانی رواں رہے۔
ان باتوں سے جی دکھا لیکن جی کو بڑا دکھ درگاہ کی حالت دیکھ کر ہوا۔ مسلمان اپنی عقیدت میں ڈوب کر حال سے بےحال ہوئے جاتے ہیں۔ اپنی مرادیں لے کر خدا جانے کہاں کہاں سے چل کر کلیر میں ڈیرے ڈال دیے ہیں، ہر طرف بےترتیبی ہے، غلاظت ہے، نجاست ہے، گداگروں نے زائرین کا راہ چلنا مشکل کردیا ہے۔ کسی نے بتایا کہ فقیروں کو حکم ہے کہ ایک جگہ کھڑے ہوکر مانگیں، لوگوں کا پیچھا نہیں کریں گے۔ انہیں یہ حکم یاد دلایا جارہا تھا مگر وہ سنی اَن سنی کررہے تھے۔ وہاں فقیر اور ان کے ’امیر‘ ایک انوکھا نعرہ لگا رہے تھے، شاید میں نے ہی کسی گداگر سے کہیں یہ کہہ دیا کہ میرے پاس چھوٹے نوٹ نہیں ہیں، کہیں سے آواز بلند ہوئی: ہم آپ کے بڑے سے بڑ ے نوٹ تُڑا سکتے ہیں۔ کلیر شریف میں سب سے بڑا ستم یہ ہوا ہے کہ وہاں سال میں ایک دفعہ جو بہت بڑا اور عظیم الشان میلہ لگا کرتا تھا وہ اب سال بھر لگا رہتا تھا۔ وہاں ہر سال دنیا بھر کے دکاندار اپنے اسٹال لگایا کرتے تھے، اب وہ اسٹال پکے کردیے گئے ہیں جو سال بھر لگے رہتے ہیں، وہی میرٹھ کے کباب پراٹھے جو سال میں ایک بار کھانے کو ملتے تھے اور لذیذ لگتے تھے، اب صبح و شام ہر وقت ملیں گے تو ان میں وہ لذت کہاں سے آئے گی۔
کلیر شریف کسی بڑی شاہراہ یا ریلوے اسٹیشن پر نہیں، دنیا زمانے کے لوگ یہ سوچے بغیر پہنچ جاتے ہیں کہ رات کہاں گزاریں گے۔ اس پر کسی نے ایک مہمان خانہ تعمیر کرایا پھر دیکھتے دیکھتے وہاں ایک سرائے بنی جس کا نام رین بسیرا ہے جو دراصل ٹین کا بنا ہوا بہت بڑا چھپّر سا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ہوٹل بھی نظر آئے۔ ہوٹل عام طور پر اپنا ظاہری حلیہ بہت بنا کر، سنوار کر رکھتے ہیں۔ کلیر میں ایسا نہیں۔ ان کا بیرونی نظارہ اندر کی کیفیت بیان کر رہا ہوتا ہے۔ شاباش ہے یہاں قیام کرنے والے زائرین کو جو آہ و زاری کرتے ہوئے بلک بلک کر اپنی آرزوئیں اور تمنائیں بیان کر رہے ہوتے ہیں، مثال کے طور پر بیوی کے ہاں لڑکیوں پر لڑکیاں پیدا ہوئی جارہی ہیں، صابر صاحب اب بیٹے عطا کردیجئے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ حالات دیکھ کر شکر ہے صابر صاحب اپنے صابر ہونے کا ثبوت دیتے ہیں اور ان کے جس جلال کی شہرت ہے وہ شاید دھیما پڑگیا ہے۔
اب رہ گئی میرے اسکول کی بات۔ روڑکی میں انگریزوں نے انجینئرنگ کالج اور گورنمنٹ ہائی اسکول بڑ ے پیار سے بنائے تھے۔ میرے سارے بڑے بھائیوں نے پرائمری اسکول نمبر چار میں ٹاٹ پر بیٹھ کر اور گورنمنٹ اسکول کے سلیقہ مند ماحول میں تعلیم پائی تھی۔ میں سنہ چوالیس میں وہاں داخل ہوا تھا اور پانچ سال سے زیادہ وہاں تعلیم حاصل کی۔ اس روز محمود میاں کی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اسکول پہنچا جو اب انٹر کالج بن چکا ہے۔ ہم سیدھے پرنسپل صاحب کے دفتر میں پہنچے جہاں وہ بہت تپاک سے ملے۔ ان کا نام رام شنکر سنگھ تھا۔ ان کے کمرے میں ماضی کے تمام ہیڈ ماسٹروں کے نام لکھے تھے مگر سنہ انیس سو چونسٹھ کے بعد والے ہیڈ ماسٹر۔ میں نے جب اپنے داخلے کا زمانہ بیان کیا تو پرنسپل صاحب کو کچھ بھی علم نہیں تھا۔ کہنے لگے چلئے آپ کو اسکول کا راؤنڈ کراؤں۔ میں نے کہا کہ لگتا ہے میں آپ کو راؤنڈ کراؤں گا۔ یہی ہوا۔ پہلا ہی کمرہ میری تیسری جماعت کا کلاس روم تھا۔ میں نے بتایا کہ یہاں مسٹر پیٹر نے ہمیں اے بی سی ڈی پڑھائی تھی۔ اب اس میں جھانک کر دیکھا تو کچھ کلرک بیٹھے کام کر رہے تھے۔ سامنے ہی ہم نے وہ درخت گرا ہوا دیکھا جو ہم لڑکوں نے لگایا تھا۔ وہ آندھی طوفان میں گر گیا تھا مگر اس کی جڑ زمین میں پیوست رہی۔ پرنسپل صاحب نے بتایا کہ اس کے نزدیک نیا پودا لگا دیا گیا ہے، وہ بڑا ہو جائے گا تو اس کو جڑ سے کاٹ دیں گے۔ غرض میں اسکول کے ایک ایک گوشے کا حال سناتا رہا، بعد میں کچھ بچے بھی میری باتیں سننے لگے۔ خاص طور پر بوائے اسکاؤٹس پر مجھے بہت پیار آیا۔ میں بھی بالکل اُسی عمر میں اسکاؤٹ تھا۔ ہمارے اسکاؤٹ ماسٹر کندن سنگھ جی کبھی کے مر کھپ گئے مگر ان کی وہ چھوٹی چھوٹی ہدایتیں اور نصیحتیں آج تک میرے ساتھ لگی چلی آتی ہیں۔
میں اسکول سے رخصت ہونے لگا تو یہ سوچتا ہوا کہ یہاں پرانے رجسٹر محفوظ ہوتے تو ان میں اپنا نام دیکھتا، اپنے سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ امتحانوں کے نتیجے دیکھتا جن میں کلاس میں آنے والی اپنی پوزیشن دیکھتا۔ ایسا ہوتا تو اس روز اپنے اوپر چھوٹا سا سہی، ناز ضرور کرتا۔