• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے پاکستان کے نام پر لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیے کہ وہ پرانے اور گلے سڑے نظام سے نجات چاہتے ہیں۔ وہ نظامِ بد جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ چکا ہے۔ 

اس وقت اس نظام کا ایک ہی فیصلہ پوری قوم کو اپنے منہ پر طمانچے کی طرح محسوس ہو رہا ہے۔ 

بچوں کے سامنے پولیس کے ہاتھوں والدین کا قتل اور پھر قاتلوں کی بریت کا عدالتی فیصلہ، ویسے تو کسی قوم کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے مگر ہم شاید اتنے غیرت مند نہیں۔ 

اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے حکومت کو اس کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنے کی ہدایت کی اور کہا ہے کہ استغاثہ سے ممکنہ خامیاں دور کی جائیں۔

عدالت نے ثبوت نہ ہونے کے سبب مجرم بری کر دیے ہیں۔ عدالت کیا کرتی جب سارے گواہ منحرف ہو گئے۔ 

49گواہ تھے مگر ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے ضمیر کے مطابق گواہی نہیں دے سکا۔ کچھ گواہوں نے تو یہ تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا کہ وہ موقع واردات پر موجود تھے۔ 

باقی تمام گواہوں نے کہا کہ اگر ملزمان کو بری کر دیا جائے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم ملزمان کو نہیں پہچان سکے۔ حتیٰ کہ مقتول کا چھوٹا بیٹا بھی ملزمان کے ملوث ہونے کی تصدیق نہیں کر سکا۔ اس کی گواہی بھی ملزمان کے حق میں گئی۔ 

اس کرپٹ نظام کی گرفت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ مقتول کے سگے بھائی نے کہہ دیا کہ وہ عدالتی فیصلہ تسلیم کرتے ہیں اور اس کے خلاف اپیل دائر نہیں کریں گے۔ 

اب حکومت نے کہا کہ ورثاء اپیل نہیں کریں گے تو حکومت پنجاب ہائیکورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔ اس سفاک واقعہ کی وڈیوز ساری قوم نے دیکھیں۔ 

بچوں کے بیانات کی وڈیوز بھی سب نے دیکھیں۔ ملزمان کے اسلحے اور جائے وقوعہ سے ملنے والی گولیوں میں مطابقت بھی ثابت ہوئی۔ 

استغاثہ نے عدالت میں فرانزک یعنی سائنسی طریقے سے تصدیق شدہ گواہیاں بھی پیش کیں مگر جب استغاثہ کے اپنے گواہ پولیس اہلکاروں کی شناخت نہیں کر سکے تو انہیں عدالت کیسے سزا دیتی۔

اوپر سے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں لکھ دیا کہ ان وڈیوز سے ملزمان کی شناخت نہیں ہو سکی۔ فرانزک ایجنسی نے رائفلوں اور گولیوں کے خول کا تجزیہ بھی کیا مگر اس مطابقت کو وقعت اس لیے نہیں ملی کہ بنیادی شہادت میں استغاثہ صحتِ جرم ثابت نہیں کر سکا۔ 

سرکاری وکیل بھی ملزمان کے حق میں تھا اس نے کہا اس حوالے سے مزید قانون سازی کی ضرورت ہے۔ جدید طریقوں سے بھی شہادتیں اکٹھی کرنے کی ضرورت ہے۔ 

حکومت پنجاب نے اس کیس کے سلسلے میں فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا مگر لگتا نہیں کہ وہ کامیاب ہو کیونکہ اکثر اس نظام کے عفریت حقائق کی تلاش میں نکلے ہوئوں کو اپنے پنجوں میں سمیٹ لیتے ہیں۔

دنیا بھر میں انہی گواہیوں سے مقدمات کے فیصلے ہوتے ہیں۔ شخصی گواہی سے کیسوں کے فیصلے کم ہوتے ہیں مگر ہمارا طریقۂ انصاف شخصی گواہوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے اور جھوٹی گواہیاں دینے والے ہر عدالت کے باہر اپنی دکان لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ 

یہ نظام بوسیدہ ہو چکا ہے۔ اس کی عمارت کسی وقت بھی ہمارے اوپر گر سکتی ہے۔ سو اسے گرانے کی فوری ضرورت ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف اسی نظام کے خلاف انصاف کی تحریک تھی۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے، لوگ تبدیلی کے منتظر ہیں مگر وہ انصاف وہ وعدےوہ تبدیلی کہیں کسی کھائی میں گر پڑی ہے۔ قوم تو اس فیصلے پر شرمسار ہے مگر صاحبانِ اقتدار، کیا وہ شرمندہ ہیں یا نہیں۔ 

کہتے ہیں عمران خان تو انصاف چاہتا ہے، وہ تبدیلی کے لئے مصروفِ عمل ہیں مگر بیورو کریسی ان کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ 

اگر یہ سچ ہے تو پھر بھی قصوروار عمران خان ہی ہیں، جنہوں نے ایسی بیورو کریسی اپنے اردگرد جمع کر رکھی ہے جو انہیں کسی معاملہ میں بھی درست مشورہ نہیں دے رہی۔

عمران خان پر الزام لگایا گیا کہ جب عمران خان گورنر ہاؤس گئے اور وہاں پر سانحہ ساہیوال کے متاثرہ بچوں کو ایک کروڑ روپے کیش دیا تھا۔ کیس ادھر ہی سیٹل ہو گیا تھا۔ اس خاندان کے ساتھ معاملات طے کر لیے گئے تھے۔ 

وزیراعظم عمران خان سانحہ ساہیوال پر سنجیدہ نہیں تھے کیونکہ اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو بچوں کو ایک کروڑ روپے نہ دیتے۔ مجھے اس بات سے قطعاً اتفاق نہیں۔ عمران خان کا ملزمان سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ انہیں بچانے کے لئے ایک کروڑ روپیہ قصاص کے طور پر دیں۔ عمران خان نے تو مظلوم بچوں کی مدد کی تھی کہ والدین کے بغیر انہیں زندگی گزارنے میں زیادہ دشواریاں پیش نہ آئیں۔ 

اگر معاملہ قصاص کا ہوتا تو اس کا اعلان بھی کیا جا سکتا تھا کہ پولیس نے ایک کروڑ روپیہ قصاص کے طور پر ادا کر دیا ہے۔ پھر فیصلے کے خلاف عمران خان نے پنجاب حکومت کو اپیل کی ہدایت کی ہے۔ انہیں یہ ہدایت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

عدالتی فیصلے میں سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ عدالت کو قاتل نہیں مل سکے۔ تین افراد قتل ہوئے، پولیس کے ہاتھوں۔ ساری دنیا نے دیکھے مگر انصاف گاہیں ابھی تک قاتلوں کی تلاش میں بھٹک رہی ہیں۔ عدالت کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان تین افراد کے قاتل کون تھے۔ کیسے معلوم ہو سکتا تھا۔ وہ گواہ جو عدالت کی آنکھیں اور کان ہوتے ہیں، جب وہی بدل گئے تھے تو عدالت کیا کرتی۔ 

یہ معاملہ صرف اسی کیس میں نہیں ہوا۔ اکثر مقدمات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ گواہ خرید لئے جاتے ہیں۔ سرکاری وکیل ملزمان کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ پولیس والے واقعاتی شہادتوں میں ردوبدل کر دیتے ہیں۔ میڈیکل رپورٹ تبدیل کر لی جاتی ہے اور انصاف کی لاش کچہریوں کی راہداریوں میں پڑی بدبو دینے لگتی ہے۔

تازہ ترین