اسلام آباد (نمائندہ جنگ،نیوز ایجنسیز) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں آزادی مارچ آج شروع ہوگا۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا کے اہم شہروں میں غیرمعمولی رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں۔ شہر اقتدار میں ڈھائی سو زائدکنٹینرز رکھ دیئے گئے۔ وفاقی دارالحکومت کنٹینرز کے شہر کا منظرپیش کررہا ہے آج سندھ اور بلوچستان سے بیک وقت آزادی مارچ شروع ہوگا۔
اسلام آباد سمیت پنجاب خیبر پختونخوا میں بھارت کے خلاف یوم سیاہ کے حوالے جے یو آئی کے تحت آج ریلیاں ہوں گی۔ اسلام آباد میں ڈی چوک کے اطراف کنٹینرز کے دو حصار قائم کر دیئے گئے، ریڈ زون کے راستوں پر کنٹینرز اور رکاوٹیں لگائی جارہی ہیں۔
اسلام آباد میں انتظامیہ نے ریڈ زون سیل کرنا شروع کردیا ہے۔ راستوں پر مزید کنٹینرز اور رکاوٹیں لگائی جارہی ہیں، ڈی چوک کے اطراف کنٹینرز کے 2حصار قائم کئے گئے ہیں۔ پہلے حصار میں مٹی سے بھرے اور دوسرے حصارمیں خالی کنٹینرز لگائے گئے۔
پولیس کے مطابق کنٹینرز رکھ کر سڑکوں کا ایک حصہ بند کیا جائے گا۔ راستوں کو مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ باقاعدہ احکامات ملنے کے بعد کیا جائے گا۔
لاہور میں مارچ روکنےکے لیے ضلعی انتظامیہ نے حکمت عملی تیار کرلی، متعدد کنٹینرز پکڑ لئے جس سے شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کو بند کیا جائے گا۔ جے یو آئی سمیت اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کی لسٹیں بھی تیار کرلی گئیں۔
فیصل آباد میں بھی اپوزیشن جماعتوں کو دھرنے میں شرکت سے روکنے کیلئے پولیس نے تیاریاں مکمل کرلیں۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے ساہیانوالہ، ڈپٹی والا اور کمال پور انٹرچینج پر درجنوں کنٹینرز پہنچا دیئے،جہلم اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سمیت مختلف شہروں میں بھی کنٹینرز کی پکڑ دھکڑ جاری ہے۔
آزادی مارچ ناکام بنانے کے لئے گوجرانوالہ انتظامیہ بھی میدان میں آگئی۔پولیس نے کنٹینرز کی پکڑ دھکڑ شروع کردی، ڈرائیورز سڑکوں پر ہی سونے پر مجبور ہیں۔
کنٹینر مالکان کا کہنا ہے کہ پولیس نے زبردستی ان کے کنٹینر رو ک لئے جس سے ان میں موجود مال خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
ادھراسلام آبادکی ضلعی انتظامیہ اورجمعیت علمائے اسلام (ف)کے مابین آزادی مارچ کے حوالے سےمعاہدہ طے پاگیا۔
سات نکاتی معاہدہ کے مطابق جمعرات کو آزادی مارچ ایچ نائن اتوار بازار میٹرو ڈپو پر منعقد ہوگا، ہفتہ کے روز ہونے والے اس معاہدہ پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد محمدحمزہ شفقات اور سیکرٹری جنرل جے یو آئی ف اسلام آبادمفتی عبداللّہ کے دستخط ہیں اور یہ معاہدہ 15روپے کے اسٹامپ پیپر پر تحریر کیا گیا ہے معاہدہ میں تحریر کیا گیا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ کے این اوسی جاری ہونے کے بعد دونوں فریقین اس بات پر راضی ہیں کہ حکومت ریلی کے شرکا کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گی اورنہ ہی ریلی کے شرکاء کے کھانے پینے کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالے گی۔
آزادی مارچ کے شرکا شہریوں کے بنیادی حقوق سلب نہیں کریں گے۔ جلسہ کے شرکا مختص کردہ جگہ سے غیرقانونی طور پر باہر نہیں جائیں گے۔
اندرونی سکیورٹی جلسہ منتظمین کی ذمہ داری ہوگی۔ جلسے کے منتظمین معاہدہ پر من و عن عملدرآمد کے لیے انتظامیہ کو بیان حلفی دیں گے۔این او سی کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی ہوگی۔
خلاف ورزی کی صورت میں یہ معاہدہ ختم ہوجائے گا۔سرکاری، غیر سرکاری املاک، انسانی زندگی کو نقصان پہنچانے کی صورت میں کارروائی ہوگی۔معاہدہ کے بعد جمعیت علمائے اسلام کو این اوسی جاری کردیا گیا۔اس بات کا اعلان حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک اور رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم دورانی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔
پرویز خٹک نے کہا کہ این او سی کے خلاف ورزی پر کارروائی کی جاسکتی ہے۔خوشی کی خبرہے کے دونوں کمیٹیوں میں معاہدہ طے پا گیا، آزادی مارچ والے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کریں گے، اگر قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو پھر حکومت اپنے اقدامات کرے گی۔
پرویز خٹک نے کہا کہ وزیراعظم کے استعفیٰ پر کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی انہوں نے کوئی مطالبہ کیا جوں جوں آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاجی ریلی ہو گی تو کنٹینرز ہٹتے رہیں گے معاہدے کے مطابق ریلی کے شرکاء یقینی بنائیں گے کہ عوام کی جان و مال کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور ریلی کے شرکاء آئین اور قانون کی پاسداری کریں گے۔
پرویز خٹک نے کہا پر امن احتجاج سیاسی جماعتوں کا حق ہے سیاسی جماعتیں پر امن احتجاج کرتی ہیں اس کا کوئی حرج نہیں۔وزیراعظم کی قائم کردہ کمیٹی نے ان کی ہدایت کے مطابق مذاکرات کئے مذاکرات کے کئی دور ہوئے بالآخر کامیابی ہوئی۔ رہبر کمیٹی نے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا جو معاہدے کے راہ میں رکاوٹ بنتا ہو۔
اب یہ جمعیت علمائے اسلام(ف) پر ہے کہ وہ کس حد تک معاہدے کی پاسدار ی کرتے ہیں حکومت پر امن احتجاج کی صورت میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گی۔ یہ 7نکاتی معاہدہ حکومت، ضلعی انتظامیہ اور جمعیت علمائےاسلام ف کے درمیان طے پایا۔
قبل ازیں پرویز خٹک نے رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی کو فون کر کے حکومتی کمیٹی کی سفارشات سے آگاہ کیا اور کہا کہ اس حوالے سے ملاقات ضروری ہے۔حکومتی کمیٹی نے اپنی سفارشات اور تجاویز پیش کیں جس پر رہبر کمیٹی نے زیادہ اعتراضات نہیں اٹھائے۔
پرویز خٹک نے کہا کہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک جلسہ کی جگہ کے حوالے سے تھا، انہوں نےکہا کہ یہ معاہدہ کسی ڈیل کے نتیجہ میں نہیں ہوا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری کو ہسپتال منتقل کرنے اور علاج معالجہ کی بہترین سہولتیں فراہم کرنے نواز شریف کی ضمانت میں رُکاوٹ پیدا نہ کرنے کی وجہ سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا روایہ نرم ہو گیا اور انہوں نے معاہدہ ہونے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں بلکہ حکومت کی بتائی جگہ پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے اور کوئی اختلاف نہیں کیا۔
اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے چیئرمین اکرم درانی کا کہنا تھاکہ آزادی مارچ کے حوالے سے ہمارا متفقہ فیصلہ ہے کہ ہم ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے اکرم درانی نے کہا کہ 9 جماعتوں پر مشتمل رہبر کمیٹی بنائی گئی جس کا مجھے چیئرمین مقرر کیا گیا۔
کمیٹی کے 11 اراکین سے ابھی بات کرکے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ʼآزادی مارچ روڈ پر کریں گے جو طویل نہیں ہوگا تاہم موقع کی مناسبت سے فیصلہ کریں گے۔
اکرم درانی نے رہبر کمیٹی کے حکومت سے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم مستعفی ہوں، شفاف الیکشن ہو جس میں فوج کی مداخلت نہ ہوں، اسلامی دفعات کا تحفظ کیا جائے اور نیب کی جانب سے گرفتار سیاسی اسیروں کی رہائی ہمارے مطالبات میں شامل ہیں۔
انہوں نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ذیلی تنظیم ʼانصار الاسلام پر پابندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ʼتمام جماعتوں کی اس طرح کی تنظیمیں ہیں لہٰذا اس پر پابندی عقل سے باہر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا آزادی مارچ پرامن ہوگا لہٰذا تمام راستے کھولے جائیں اور امن و امان کی صورتحال کو خطرے میں نہ ڈالا جائے جبکہ امید ہے کہ حکومت ہمارے مطالبات تسلیم کرے گی۔
حکومت اپوزیشن تازہ رابطے جلسے کا مقام طے کرنے تک محدود رہے،اس میں اپوزیشن کے مطالبات پر کوئی بات نہیں ہوئی اپوزیشن کا اصرار تھا کہ ڈی چوک میں جلسے کی اجازت دی جائے حکومت نے پریڈ گرائونڈ شکرپڑیاں میں مارچ اور جلسہ کرنے کے لیے کہا حکومت نے چائنا چوک بلیوایریا میں بھی جلسہ کرنے کی تجویز نہیں مانی۔ بعد میں حکومت کی طرف سے تجویز مان لی گئی کہ اپوزیشن پشاور موڑ شاہراہ کشمیر پر جلسہ کر سکتی ہے۔