آپ لیاقت آباد کے مشہور گول گپّے کھانے جائیں یا پھرکشتی میں سوار ہوکر منوڑا کی سیر کریں، ایسے لمحات صرف یادگار ہی نہیں ہوتے، بعض اوقات ذہن پر اَن مٹ نقوش بھی چھوڑ جاتے ہیں اورایسے ہی کئی حسین ،یادگار لمحات کیمرے میں قید کرنے کے فن سے آج کل کے نوجوان بخوبی واقف ہیں۔دورِ حاضر میں سیلفی مینیا (اپنی تصویر خود کھینچ کر سوشل میڈیا پر شیئر کرنا)،بالخصوص نوجوانوں میں وبا کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ دیکھیں۔ بعض افراد تو چوبیس گھنٹوں میں چوبیس سیلفیز لیتے ہیں۔ اگر آپ بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہیں، تو جان لیں کہ یہ کوئی خُوبی نہیں، بلکہ ایک ذہنی بیماری ہے، جسے ماہرینِ ذہنی صحت نے "Selfie Narcissism"کا نام دیا ہے۔ "Narcissism" جسے اُردو میں ’’نرگسیت‘‘ کہا جاتا ہے، ایک ذہنی یا نفسیاتی بیماری ہے، جس میں مبتلا فرد اپنی بہت زیادہ تعریف چاہتا ہے اور اس کوشش میں رہتا ہےکہ موقع بے موقع خود کو دوسروں کے سامنے نمایاں کرے اور سیلفی کی ایجاد نے یہ کام بہت آسان کردیا ہے۔
ڈینی براؤن نامی برطانوی کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ دُنیا کا پہلا ’’سیلفی نارسیزیزم‘‘کا مریض ہے۔ دراصل ڈینی میںسیلفی لینے کاجنون اس حد تک بڑھ چُکا تھا کہ اس کے ذہن میں خودکُشی کرنےکے خیالات گھر کرنے لگے۔ وجہ یہ تھی کہ اُسے لگتا تھا کہ وہ اچھی سیلفی نہیں لے سکتا۔ چناں چہ وہ دِن کے دس گیارہ گھنٹے صرف سیلفیز لینے ہی میں گزار دیتا ۔
وہ تقریباً چھے ماہ سے اپنے گھر سے باہر نہیں نکلا تھا ،کیوںکہ اُسے ڈر تھا کہ اگر کہیں اپنی تصویر کھینچنی پڑجائے، تو وہ اچھی سیلفی لینے میں ناکام رہے گا۔ اس کے دِن کا آغاز بستر پر سیلفی لینے سے ہوتا، لیکن جب درجنوں سیلفیز اس کے معیار پر پوری نہیں اُترتیں،تو مزاج میں چڑچڑا پَن پیدا ہوجاتا اور مایوسی اتنی بڑھتی کہ خودکُشی کے بارے میں سوچنے لگتا ۔ اس نےکئی بارایک سو سے زائد اچھی سیلفیز لینے کی ناکام کوشش کے بعد خودکُشی کی کوشش بھی کی، لیکن ہر بار اس کی ماں نےبچالیا۔مگر جب اس طرح کے واقعات بڑھتے گئے،توڈینی کو لندن کے ایک اسپتال میں علاج کی غرض سے لے جایاگیا،جہاں معائنے کے بعداُس میں اوسی ڈی (OCD:Obsessive Compulsive Disorder) اور پی ڈی ڈی (PDD:Pervasive Developmental Disorder) جیسے امراض تشخیص کیے گئے۔ دورانِ علاج اس کی کائونسلنگ جاری رہی۔
ابتدا میں دس دس منٹ کے وقفوں سے اُس کا موبائل فون اس سے لے لیا جاتا، پھر یہ وقفہ بڑھاتے بڑھاتے تیس منٹ سے ایک گھنٹاکردیا گیا۔اُس کے لیے تو چند منٹ اپنے موبائل فون سے دُور رہنا محال تھا،لہٰذا ابتدا میں فون سے دُوری کا دورانیہ اُسے بہت تکلیف دہ لگتا، مگر پھریہ احساس ہونے لگا کہ اگر وہ اپنی زندگی چاہتا ہے، تو اُسے اپنےموبائل فون کو خود سے دُور کرنا ہوگا۔
امریکن سائیکاٹرک ایسوسی ایشن کے مطابق سیلفی نارسیزیزم کا مرض دس بڑے شخصی مسائل میں شامل ہوچُکاہےاور جو پوری دُنیا میں بڑھتا ہی چلاجارہا ہے۔یاد رہے، شخصی مسائل سے انسان کی شخصیت کے کئی گوشے سامنے آتے ہیں،مثلاً وہ اپنے یا دوسروں کے بارے میں کیا سوچتا ہے، دوسروں سے کیسے تعلقات استوار کرتا ہے، اپنے برتائو کو کیسے کنٹرول کرتا ہے،نیز، سیلفی کیمرا اور سوشل میڈیا کیسے نرگسیت کو فروغ دے رہے ہیں؟وغیرہ وغیرہ۔اگرچہ نرگسیت انسانی تاریخ کا قدیم مرض ہے،مگر دورِ حاضر میں اسمارٹ فونز اور اس میں نصب جدید سیلفی کیمرے، اس مرض کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔
اب تو ایسے موبائل فونز بھی دستیاب ہیں ،جن میں کیمرے کے مقابلے میں سیلفی کیمرے کی ریزولیشن زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خود اسمارٹ فون بنانے والی کمپنیز بھی اس مرض کو بڑھاوادینے میں فعال ہیں،کیوں کہ انہیںصارفین کی صحت سے کوئی غرض نہیں،صرف زیادہ سے زیادہ پیساکمانے سے سروکار ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا کا ہدف ’’فرد‘‘ ہے۔ جب کوئی فرد اپنے اکائونٹ سے ایک پوسٹ شیئرکرتا ہے، تواگر کسی بھی وجہ سےپوسٹ اور ویوز پر کم لائکس ملیں ،تو لائکس بڑھانے کے لیے نت نئے طریقوں سے سیلفی لینے کی تدابیر اختیارکی جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافے سے اگر ایک جانب صارفین کا سوشل نیٹ ورک بڑھ رہا ہے ،تو دوسری جانب اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے نفسیاتی اور جذباتی مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ ایک ماہرِ نفسیات کے مطابق جو افراد نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں، وہی سیلفی کے جنون میں مبتلا پائےجاتے ہیںیا پھرجن کی خود اعتمادی، خود توقیری کم ہو، وہ سیلفی لینےکے بہانےڈھونڈتے ہیں۔
مثال کے طورپرکوئی فردکسی بڑے ہوٹل میں جائے، تو فوراً سیلفی لے کر اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر شیئر کرئے گا، لیکن جو افراد آئے دِن ان ہوٹلز میں آتے جاتے رہتے ہیں، کیا وہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں؟ یہ بہت اہم سوال ہے ،خاص طور پراُن افراد کے لیے جو اپنے کھانوں کی، لوگوں سے ملاقات کی، مختلف پروگرامز کی سیلفیز شیئر کرتے پھرتے ہیں۔ درحقیقت، یہ سیلفیز اس بات کا ثبوت دیتی ہیں کہ آپ اپنے مقام سے بڑھ کر کچھ کھا رہے ہیں، کسی سے مل رہے ہیں یا کسی پروگرام میں شرکت کررہے ہیں۔ جوافراد بغیرکسی محنت کےاپنی پذیرائی، شہرت اور کام یابی چاہتے ہیں، وہ بھی الیکٹرانک یا ڈیجیٹل نرگسیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر خودنُمائی کرنے والے افراد کے بارے میں وثوق سےکہا جاسکتا ہے کہ وہ جتنا زیادہ خود کو پُراعتماد ظاہر کررہے ہیں، دراصل اتنا ہی اندر سے خود کو کم تر محسوس کرتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایسے افراد اپنے اندر کے کھوکھلے پَن کو اس انداز سے ایک نیا لبادہ اُڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر سیلفیز اور تصاویر شیئر کرنا اس کا آسان اور سستا ترین طریقہ ہے۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ جو افرادبہت زیادہ سیلفیز لیتے ہیں یا کسی بھی طرح سوشل میڈیا پر خود کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ نرگسیت کے شکار ہوسکتے ہیں۔ ایسی کئی تحقیقات موجود ہیں اور مسلسل کی بھی جارہی ہیں، جن سے اس حقیقت کو تقویت ملتی ہے کہ سیلفی لینا محض ایک شوق یا رواج ہی نہیں، ایک ذہنی بیماری ہے۔
(مضمون نگار، فلاحی تنظیم ’’ٹرانس فارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی‘‘ کے بانی ہیں اور گزشتہ پچیس برس سے پاکستان، کینیڈا سمیت دیگر مُمالک میں خاص طور پر ذہنی صحت کے حوالے سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں)