• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر۔ طلعت بٹ ۔۔۔ اوسلو
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ساہیوال کیس میں ملوث تمام ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔زندگی عموماً آسودگی سے عبارت ہے مگر دنیا میں روز و شب نت نئے واقعات، حادثات و سانحات بھی جنم لیتے رہتے ہیں۔ اکا دکا سانحات ایسے دلخراش واقع ہوتے ہیں کہ قیامت صغریٰ کا منظر پیش کرتے انسانی روح کو زخموں سے چور چور کر گزرتے ہیں اور انسان اسقدر نڈھال ہو جاتا ہے کہ اسے زمانے سے خیر کی توقع ہی عبث دکھائی دیتی ہے ۔نظام قدرت ہے کہ گرچہ وقت کا مرہم ان زخموں کو بظاہر بھر دیتا ہے مگر ان کا ذکر چھڑتے ہی قلب و روح سے دوبارہ ٹیسیں نمودار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ آج میں بھی اسی صورت حال سے دوچار ہوں۔ جسم میں جان نہیں رہی اور دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔رواں برس بروز ہفتہ 19 جنوری کی سہ پہر کیا ہوا آپ کو یاد ہے؟اس روز سی ٹی ڈی نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک مشکوک مقابلے کے دوران ایک گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی۔ پولیس کی فائرنگ سے شادی میں شرکت کےلئےجانے والا خلیل، اس کی اہلیہ اور 13 سالہ بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور3 بچے زخمی ہوگئےتھے جبکہ پولیس کی جانب سے 3 مبینہ دہشت گردوں کے فرار ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔پولیس کا بیانیہ سراسر غلط بیانی پر مبنی تھا۔ بعد ازاں اس سانحہ کی تفصیلات کو تمام میڈیا میں خاطر خواہ بیان کر دیا گیا ۔ تفصیلات کو دہرانا مقصود بھی نہیں اور زیادہ تکلیف دہ بھی ہے۔سوچتا ہوں، تحریک انصاف کےقائدین، زعماء، رہنما، اراکین و خیر خواہ کتنے سرشار ہوں گے کہ مملکت خدا داد میں ناانصافی کا نظام تبدیل کر کے عوامی خدمت کی نئی مثال قائم کر ڈالی اور موجودہ نظام انصاف لانے میں اور اسے سہارا دینے میں اپنا حصہ ڈالا۔فیصلہ دینے والی عدالت کے منصف اعلیٰ کو اطمینان قلب حاصل ہوا ہو گا کہ عدل کا بول بالا کرنے میں کامرانی ہوئی۔ محکمہ پولیس کے ارباب اختیار کا سر فخر سے بلند اور ان کے مورال میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہو گا کہ انسداد دہشت گردی کے معزز و مکرم منصف نے محکمہ پولیس پر لگے تمام مکروہ الزامات حرف غلط کی طرح مٹا دیئے اور محکمہ پولیس کی ساکھ کو دوبارہ عزت و تکریم بخشی ۔ عوام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ہو گی، ان کے نزدیک جن کا مسئلہ ہے وہی خاندان بھگتے۔ ان پر تو براہ راست اس فیصلے کا کوئی منفی اثر نہیں پڑنے والا۔ "تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو"
پھر سوچتا ہوں ان 3 معصوم بچوں پہ کیا گزر رہی ہو گی ؟ جن کے والد کو بلا جواز ان کی نظروں کے سامنے دن دھاڑے موت کی ابدی وادیوں میں اتار کر انہیں سایہ شفقت سے مستقل محروم کر کے اس بے رحم معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ۔ ان کی والدہ محترمہ جو آخری دم تک اپنے جسم کی ڈھال سے ان کی زندگی کو محفوظ بناتے ہوئے برستی گولیوں کو اپنے سینے میں جذب کرتی جان کی بازی ہارگئیں۔ ان کی 13 سالہ بہن جو ان کے ساتھ لاڈ پیار سے نہ صرف کھیلتی ہو گی بلکہ چندا ماموں کی کہانیاں سنا کر انہیں بہلاتی پھسلاتی ہو گی اور جس نے شادی میں شرکت کی غرض سے رنگ برنگے کپڑے پہن کر اٹھکیلیاں کرنے کا سوچ رکھا ہو گا۔ گولیوں سے چھیدے جسم سے رواں دواں سرخ خون سے رنگے اس کے پورے جسم کے اس خوں نشین منظر نے ان بچوں کے شعور و لاشعور میں کیا ابدی اثرات چھوڑے ہوں گے۔خدایا !اتنے بڑے سانحے کا کوئی ایک شخص بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرا؟کیا پاکستانی معاشرہ مکمل بے حس ہو چکا ؟ اور کیا اس میں ایک حقیقی تبدیلی کی خواہش مکمل مفقود ہو چکی ؟بلاشبہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ۔
تازہ ترین