پشاور(امجد صافی) پشاورہائیکورٹ نے آزادی مارچ کے شرکاء کے راستے میں کسی بھی قسم کی روکائوٹیں کھڑی نہ کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع اور اٹک تک دھرنے کے شرکاء کے لیے سڑکوں کو کھلا رکھا جائے اور اس میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ غیر قانونی تصور ہوگی جبکہ پیمرا کو ہدایت دی کہ وہ حکومت اور اپوزیشن کو ٹی وی چینلز پر یکساں وقت دینے کا حکم جاری کرے۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس احمد علی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے عظمت علی مہمند اور عبید اللّہ انور ایڈوکیٹ کی تین مختلف درخواستوں کی سماعت کی دوران سماعت کیسوں کی پیروی عیسی خان ایڈوکیٹ، فاروق آفریدی ایڈوکیٹ اور عمران ہشتنگر ایڈوکیٹ نے کی جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل قیصرعلی شاہ، عمرفاروق، محمد ارشد اور محمد سہیل ایڈوکیٹ پیش ہوئے جبکہ وفاق کی جانب سے اسٹنٹ اٹارنی جنرل سیف الرحمان خٹک ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار وکلا نے عدالت کو بتایا کہ جے یو آئی ف اس وقت پورے ملک سے آزادی مارچ کیلئے اسلام آباد جانا چاہتی ہے اور اس کا آغاز صوبہ سندھ سے ہو چکا ہے خیبر پختونخوا حکومت نے مظاہرین کا راستہ روکنے کے لئے مختلف مقامات پر سڑک کے کنارے کنٹینرز رکھے ہیں اور خدشہ ہے کہ آزادی مارچ کے شرکا ء کو اسلام اباد پہنچنے سے قبل راستے میں روکا جائے گا لہذا حکومت کا یہ اقدام غیر قانونی اور غیرآئینی ہے دوسری جانب صوبائی حکومت کے وکلا نے رٹ کی قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ یہ رٹ قابل سماعت ہی نہیں اور صرف مفروضوں پر مشتمل ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اپ لوگ زمہ داری لیتے ہیں اور عدالت میں بیان دیتے ہیں کہ شرکا کے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جائے گی تو ابھی سے یہ درخواستیں نمٹا دی جاتی ہیں جس پر قیصر علی شاہ نے کہا کہ جب پر تشدد واقعات ہونگے تو حکومت حرکت میں آئے گی اور اپنے رٹ قائم کرنے کے لئے کارروائی ضرور کرے گی، اگر کہیں پر ڈنڈا بردار فورس یا مسلح افراد نظر آئے تو قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزراء اور ارکان اسمبلی کے پاس بھی تو مسلح گارڈ ہی ہوتے ہیں تو اپوزیشن کے پاس بھی گارڈ ہونگے کیا آپ لوگوں نے حکومتی ارکان کے پرائیوٹ گارڈز کے خلاف کارروائی کی ہے یا صرف ان آزادی مارچ کے شرکا کے خلاف قانونی کاروائی کرنا چاہ رہے ہیں۔
جسٹس نے اے جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کی یہ زمہ داری ہے کہ امن ومان برقرار رکھیں اور ایسی صورت میں آپ کے پاس قانونی راستہ موجود ہے تاہم پُرامن مظاہرین کے راستے میں کنٹینر کسی صورت نہیں رکھے جا سکتے اور کسی کو بھی آئینی طور پر پر امن مارچ سے نہیں روکا جا سکتا دوران سماعت چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل عمر فاروق سے استفسار کیا کہ کیا آزادی مارچ کے شرکا اور حکومت کے مابین کوئی معاہدہ ہوا ہے تو انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ معاہدہ صرف اسلام آباد کی حد تک ہے جس میں صرف دھرنے اور مارچ کے مقام کو تبدیل کرنے کا زکر ہے درخواست گزار کے وکیل عیسی خان ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اسی جماعت نے ابھی تک 15 ملین مارچ کیے ہیں اور ابھی تک کوئی ناخوشگوار واقعہ ییش نہیں آیا اور نہ ہی کسی سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہے مگر اب آزادی مارچ کے شرکاء کو روکنے کے لیے سڑکوں کے کنارے کنٹینرز رکھے گئے ہیں اور خدشہ ہے کہ کسی بھی وقت سڑکوں کو بند کر دیا جائے۔
جس پر چیف جسٹس نے اے جی قیصر علی شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ بیان حلفی جمع کرتے ہیں تو ٹھیک ہے جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ حکومت کی جانب سے عدالت کو یہ یقین دہانی دینے کے لیے تیار ہیں کہ ان پُرامن شرکاء کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے جس پر عدالت نے اس کا بیان ریکارڈ کیا اور موقف اختیار کیا کہ اگر مارچ کے شرکا نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو حکومت اس کے خلاف کاروائی کرے گی اور آزادی مارچ کے شرکاء کے ساتھ قانون کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل عیسی خان ایڈوکیٹ نے اعتراض اٹھایا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ہر چیز میں عوام کیلئے مشکلات پیدا کی ہیں اور تاجر بھی دو روزہ ہڑتال پر ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بھی پتہ ہے کہ تاجر ہڑتال پر ہیں ڈاکٹر اور وکلا بھی ہڑتال پر ہیں لیکن یہ سیاسی باتیں ہیں ایسی باتیں روسٹم پر نہیں ہونی چاہیے جس پر قیصرعلی شاہ نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ پرامن مارچ کرنے والوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔
عدالت نے رٹ پٹیش سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ اس حوالے سے آزادی مارچ کے شرکاء کے راستے میں خیبر پختون خوا کے تمام اضلاع سے لیکر اٹک تک کوئی بھی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے اور سڑکوں کو بند نہیں کریں گے عدالت نے آزادی مارچ کے شرکاء کو پُر امن رہنے کے لیے ضمانت جمع کرنے کی ہدایت کی اسی طرح پیمرا کے خلاف دائر رٹ پٹیشن میں درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا ہے کہ پیمرا نے ایک زبانی حکم نامے کے ذریعے آزادی مارچ کی کوریچ سے تمام الیکٹرانک میڈیا کو روک دیا ہے جو کہ انکے ساتھ زیادتی ہے اور پیمرا ایسا حکم نامہ ہی جاری نہیں کر سکتی ۔