پاکستان تحریک انصاف حکومت کوا یک برس بعد ہی حزب اختلاف کی ایک بڑی تحریک کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلزپارٹی، نیشنل پارٹی، پختون خوا ملی عوامی پارٹی، قومی وطن پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مرکزی جمعیت اہل حدیث، جمعیت علما پاکستان ،جمعیت علما اسلام (ف) پر مشتمل 9جماعتوں کی احتجاجی لانگ مارچ جو آزادی مارچ کے نام سے اسلام آباد رواں دواں ہے۔
جے یو آئی ایف کے مولانا فضل الرحمن کے زیرقیادت لانگ مارچ نے ماضی کے دیگر ایسے ہی دیگر احتجاجی لانگ مارچ کی یاد تازہ کردی ہے۔ حکومتوں کےخلاف ہردور میں احتجاجی تحریک ہماری جمہوری روایات کا حصہ ہیں۔
تاہم لانگ مارچ کیا ہے اورکیا ماضی کی حکومتوں کو بھی ایسے احتجاج حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے کچھ یادیں تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔
لانگ مارچ ہے کیا؟
جلسے، دھرنے ،ریلی اور لانگ مارچ احتجاج کے یہ سارے رنگ ہماری تاریخ میں موجود اور محفوظ ہیں۔ ہمارے یہاں کی سیاست میں لانگ مارچ کی اصطلاح چین کی تاریخی جدوجہد سے لی گئی ہےجس کی وجہ اس لانگ مارچ میں عوام کی قربانیاں اور کامیابی کے بعد ترقی یافتہ بننے والا عظیم چین ہے۔
تاریخ میں ضرب المثل بننے والا لانگ مارچ اور دنیا کی سب سے بڑی انقلابی مہم کمیونسٹ پارٹی چین نے کیا تھا جو عظیم رہنما مائوزے تنگ اور چواین لائی کے زیرقیادت نیشلسٹ پارٹی کے خلاف تھا۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ کئی لانگ مارچ تھے جو 1930 سے1934 تک رہے تاہم آخری اکتوبر 1934 سے اکتوبر 1935 تک رہا، جس میں کمیونسٹ لیڈروں نے ایک اندازے کے مطابق 370 دنوں میں نو ہزار کلو میٹر (پانچ ہزار چھ سومیل) کا فاصلہ طے کیا ۔
مشکل مہم کمیونسٹ فوج کے ہزاروں افراد نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اسی عظیم لانگ مارچ کی کامیابی کے بعد چین کی کمیونسٹ پارٹی مسلسل برسراقتدار ہے اور چین دنیا میں آج خوشحال مضبوط قوم میں شمار ہوتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں لانگ مارچ
پاکستانی سیاست میں لانگ مارچ کی احتجاجی سیاست 70 کی دہائی سے پہلے تک معمر نیپ رہنما مولانا عبدالحمید بھاشانی کی جدوجہد میں نظر آتا ہے جو زیادہ تر مشرقی پاکستان میں اس طرح کی سرگرمیاں رکھتے تھے۔
حکومتوں کے خلاف احتجاجی ریلیاں تو ہیں تاہم اکثر رہنماؤں نے لانگ مارچ احتجاج کو صرف دھمکی کے طور پر استعمال کیا۔ حکومت وقت کے خلاف لانگ مارچ احتجاج کا دوبارہ سلسلہ 90 کی دہائی کے بعد سے نظرآتا ہے ۔
اس دوران میاں نواز شریف کے زیر قیادت ن لیگ کو دو اور آصف زرداری کے زیرقیادت پی پی پی کوایسے تین احتجاجی لانگ مارچ کا سامنا کرنا پڑا جس کا مرکز اسلام آباد تھا۔
نومبر1992، محترمہ بے نظیر بھٹو کا اسلام آباد لانگ مارچ
نومبر 1990 سے نواز شریف وزارت عظمیٰ پر فائزتھے۔ 30اکتوبر1992 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے زیرقیادت حزب اختلاف اتحاد پی ڈی اے نے کئی الزامات لگاتے ہوئے فوری طور پر حکومت برطرفی اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا اور اپنے مقصد کے حصول کےلیے احتجاجی لانگ مارچ کا اعلان کیا۔
بعد ازاں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس بھی اس لانگ مارچ کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے اس کا حصہ بن گیا۔ منصوبے کے مطابق 18نومبر1992 کو ملک بھر سے آئے ہوئے تمام مظاہرین کو راولپنڈی لیاقت باغ سے پارلیمنٹ پہنچنا تھا۔جڑواں شہر میں سخت حفاظتی اقدامات کے ساتھ دفعہ 144 کا نفاز تھا۔ جس کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاری ہوئی۔
تاہم محترمہ بے نظیر بھٹو تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے لیاقت باغ پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں تھیں۔لیکن سرکاری سطح پر سخت اقدامات کے سبب پانچ ہزار سے زائد افراد گرفتار کیے گئے تھے، محترمہ بے نظیر بھٹوسمیت کئی مرکزی رہنماوں گرفتار کرلیا گیاتھا۔اور پھر اسلام آباد بدر کردیا گیاتھا۔
جولائی 1993 کے دوسرے ہفتے میں میں جب صدر غلام اسحق خان اور وزیراعظم نوازشریف کے درمیان شدید اختلافات کے باعث امور مملکت متاثر تھے۔تو اس موقع پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوبارہ لانگ مارچ کا اعلان کیا تاہم اس کی ضرورت پیش نہ آسکی ۔کیونکہ اس کے بعد دونوںاپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔
جون 2008 ،وکلا کا چیف جسٹس بحالی کےلیے لانگ مارچ
پی پی پی حکومت کو برسراقتدار آئے تین ماہ ہوچکے تھے۔ ملک میں تین ستمبر 2007کی لگائی ایمرجنسی کے نتیجے میں چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت کئی سینئر ججوں کو پی سی او حلف نہ اٹھانے پر سبکدوش کردیاگیا تھا جن کی بحالی کےلیے مسلسل تحریک جاری تھی۔
ان ہی حالات کے پس منظر میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کو چیف جسٹس بحالی کےلیے سپریم کورٹ بار اور دیگر وکلا انجمنوں کی جانب سے اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس تک احتجاجی لانگ مارچ کیا گیا۔ ملک میں پیپلزپارٹی کے یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔
اس لانگ مارچ کو ن لیگ ،جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی مکمل حمایت حاصل تھی۔10جون سے مارچ کے شرکا نے سفر کا آغاز کیا۔ پی پی حکومت نے مظاہرین کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اجتماع کی اجاز ت دیدی تھی۔ یہ احتجاج مکمل پرامن رہا اور 14جون کو بغیر دھرنے دیے یہ لانگ مارچ مکمل ہوا تھا۔
مارچ 2009، چیف جسٹس افتخار چوہدری بحالی کا لانگ مارچ
پی پی پی حکومت کو ایک برس ہونے کے قریب تھا۔ پی سی او چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی تاریخ ریٹائرمنٹ 21مارچ قریب تھی۔ ایسے میں سابق صدر پرویزمشرف کے جانب سےقریبا دیڑھ برس قبل برطرف کیے گئے چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت دیگر ججوں کی بحالی کےلیے 12مارچ 2009 کو احتجاجی لانگ مارچ کا آغاز ہوا۔جس میں اسلام آباد پہنچ کر پرامن دھرنے کا پروگرام شامل تھا۔
وکلا انجمنوں، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں، ن لیگ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی سمیت اپنے مرکزی رہنماؤں سمیت کارکنوں کی بڑی تعداد کےہمراہ ملک کے چاروں جانب سے اسلام آباد کی جانب سفر کا آغاز کیا۔
سرکاری طور پر 144 کا نفاذ تھا اور حفاظتی اقدام کے طور پر جڑواں شہر راولپنڈی اسلام آباد میں کنٹینر لگادیے گئے تھے تاہم شرکا جب تک اسلام آباد پہنچتے16مارچ کی صبح 5.50 منٹ پر وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے ٹیلی ویژن پربراہ راست قوم سے خطاب میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کا اعلان کیا۔
جس کے ساتھ ہی وکلا سیاسی جماعتوں پر مشتمل یہ لانگ مارچ کامیابی سے اپنے اختتام پر پہنچا۔ عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کے بعد 22مارچ 2009 کو افتخار چوہدری مرتبہ پھر چیف جسٹس پاکستان مقرر ہوگئے۔
جنوری2013، انتخابی اصلاحات کےلیے ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ
پی پی پی حکومت اپنا دورانیے کے اختتام پر تھی کہ 13جنوری 2013 سے منہاج القران کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے کارکنوں ہمدردوں کے ہمراہ اپنے مطالبات کی منظوری کےلیے لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ ان کے پروگرام میں اسلام آباد پہنچنے کے بعد دھرنا شامل تھا۔
ان کا سفر جی ٹی روڈ سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچاتھا۔ انہیں سرکاری طور پر صدر اور وزیراعظم درجے کی سیکورٹی فراہم کی گئی۔14 جنوری کو لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد پہنچےاور تین دن سخت سردی میں دھرنے دینے کے بعد 17جنوری کو حکومتی مذاکرات کے بعد میں ایک معاہدے پر اتفاق کے بعد اختتام پذیر ہوا تھا۔
اعلامیہ میں حکومتی اتحاد کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین، مخدوم امین فہیم، سید خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ، فاروق ایچ نائیک، مشاہد حسین سید، ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری، افراسیاب خٹک، اور سینیٹر عباس آفریدی جبکہ منہاج القران کے ڈاکٹر طاہرالقادی نے دستخط کیے۔
اس اتفاقی اعلامیے پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بھی دستخط کئے تھے۔
اگست2014، منہاج القرآن اور پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ ،دھرنا
وزیراعظم میاں نواز شریف کے زیرقیادت ن لیگ حکومت کو 14ماہ گزرچکے تھے۔ حکومت کے خلاف اپنے مطالبات کےلیے تحریک منہاج القرآن اور پاکستان تحریک انصاف نے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ اور ددھرنے کا فیصلہ کیا۔
طاہرالقادری کے زیرقیادت تحریک منہاج القرآن ماڈل ٹاؤن واقعے پر اپنے مطالبات کےلیے 14اگست 2014کو انقلاب مارچ کے نام سے پھر لانگ مارچ اوردھرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ 16اگست کو اسلام آباد پہنچے اور19اگست کو اپنے کارکنوں ہمدردوں کے ہمراہ اسلام آباد کے ریڈزون میں داخل ہوکر پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئے تھے اور تقریبا68دن دھرنا دینے کے بعد 21 اکتوبر کو اس کے خاتمہ اعلان کرتے ہوئے کہاتھا کہ اب احتجاج اگلے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔
قومی اسمبلی کی تیسری بڑی اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت رکھنے والی تحریک انصاف نےاپنے چیئرمین عمران خان کی قیادت میں آزادی مارچ کے نام سے اسلام آباد لانگ مارچ اور وہاں پہنچ کر دھرنے کا فیصلہ کیا۔
19 اگست سےریڈ زون میں جاری یہ احتجاجی دھرنا قریبا 123 دن جاری رہنے کے بعد 16دسمبر 2014 کو سانحہ آرمی پبلک اسکول کو ہونے کے بعد فوری طور ختم کردیا گیا تھا۔