• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشرے کے مختلف شعبوں میں افراتفری اور بگاڑ دیکھ کر مجھے کئی پرانی یادیں آ جاتی ہیں۔ اسکول کے زمانے میں ماسٹر اللہ رکھا ہاتھوں میں ڈنڈا گھماتے ہوئے کہتے کہ ’’ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا‘‘۔

جلالپور جٹاں کے گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر 2کی سب سے مشہور ہستی ماسٹر بشیر باجوہ تھے۔ ماسٹر بشیر باجوہ ویسے تو مطالعہ پاکستان پڑھاتے تھے مگر وہ اسکول کے پی ٹی ماسٹر بھی تھے۔

میرے عزیز چوہدری ممتاز احمد یہاں زیر تعلیم تھے۔ اُن کے بقول ماسٹر باجوہ کے ہاتھ میں ایک لمبی ڈانگ ہوتی تھی، وہ تفریح کا وقت ختم ہونے پر تمام جماعتوں کے مانیٹروں سے رپورٹ حاصل کرتے کہ کس کلاس کے کون کون سے لڑکوں نے شرارتیں کی ہیں۔

پتا چلتا کہ چھٹی کلاس کے چار لڑکوں نے شرارتیں کیں، ساتویں کے چھ، آٹھویں کے پانچ، نویں کے سات اور دسویں جماعت کے چھ لڑکے شرارتوں میں ملوث تھے۔

شرارتی لڑکوں کی رپورٹ کے بعد ماسٹر بشیر باجوہ ان تمام لڑکوں کو کان پکڑوا لیتے اور پھر ایک ہی ڈانگ سے سارے کس بل نکال دیتے۔ اگر کوئی زیادہ شرارتی باز نہ آتا اور اس کی شکایتیں روزانہ کی بنیاد پر آتیں تو باجوہ صاحب اسے ٹک ٹکی پر چڑھاتے۔

ٹک ٹکی کیا تھی؟ لڑکے کو بنچ پر الٹا لٹایا جاتا، اس کے دونوں بازو ایک لڑکا پکڑتا اور دوسرا لڑکا دونوں ٹانگوں کو قابو کرلیتا۔ بس اس کے بعد ماسٹر باجوہ کی ڈانگ برسنا شروع ہو جاتی۔ ٹک ٹکی کا یہ مظاہرہ سال میں ایک مرتبہ ہوتا لیکن اس کا خوف پورا سال رہتا۔

یوں ماسٹر بشیر باجوہ نے پورے اسکول کو قابو کر رکھا تھا۔ پورے اسکول پر ان کا خوف طاری تھا۔

شخصیات نسلیں سنوارنے اور بگاڑنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ایک سابق چیف جسٹس اور موجودہ سیاستدان افتخار چوہدری نے جہاں قوم کی آسوں اور امیدوں کے چراغ بجھائے وہاں انہوں نے وکلاء برادری کا ستیاناس کر دیا۔ انہوں نے اچھے بھلے پڑھے لکھے وکیلوں کو بدتمیز بنا دیا۔

حالیہ دنوں میں چند ایسے واقعات پیش آئے کہ انسانیت لرز کر رہ گئی۔ حالات یہ ہیں کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں محکمہ صحت کے دو ملازمین کو وکلاء کی اردل میں لایا جاتا ہے، ان سے اس طرح معافیاں منگوائی جاتی ہیں جیسے کسی وڈیرے جاگیردار کےسامنے مزارعے ہاتھ جوڑ کے کھڑے ہوتے ہیں۔ لاہور کے احاطہ کچہری میں وکلاء کی عورتوں سے لڑائیاں معمول کا حصہ ہیں۔ ایم اے او کالج لاہور کے باہر کس طرح خاتون وکیل ایک شخص کی گاڑی کو توڑتی ہے، گالیاں دیتی ہے، یہ مظاہرہ کھلے عام سڑک پر ہوتا ہے۔

اسی روز ایک اور وڈیو کلپ شکرگڑھ کچہری کا آ جاتا ہے جس میں ایک باریش وکیل ایک لڑکی کو دھکا دیتا ہے اور پھر دوسرا وکیل اسے ٹھڈا مارتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ لڑکی نواحی گائوں شاہ پور بھنگو کی ہے، پتا نہیں اس کا ان وکلاء کے ساتھ کیا مسئلہ تھا مگر مسائل کے حل کیلئے دھکے اور ٹھڈے تو انصاف کی آواز نہیں بنتے۔

وکلاء کو مہذب انداز اپنانا چاہئے تھا میں نے وکلاء کا یہ ’’حسنِ سلوک‘‘ ایک جج صاحب سے بیان کیا تو انہوں نے مجھے چند اور وڈیو کلپ بھیج دیئے۔ ان کلپس میں کہیں وکلاء عدالت کو تالے لگا رہے ہیں، کہیں ریڈر کو مارتے ہیں اور کہیں جج کی باری آ جاتی ہے۔

بعض جگہوں پر ججوں کو کرسیوں سے گھسیٹ کر اتارا جاتا ہے، اس دوران وکلاء عدالتوں میں کہے گئے وہ سارے جملے بھول جاتے ہیں جو ججوں کے احترام میں کہے گئے تھے۔

وڈیو کلپس دیکھنے کے بعد میں نے جج صاحب سے پوچھا کہ حضور! یہ کہاں کے ہیں انہوں نے بتایا کہ ’’یہ وڈیو کلپس لاہور، ملتان، راولپنڈی اور سرگودھا کے ہیں‘‘ اگر پنجاب کے بڑے شہروں میں وکلاء کے یہ ’’شاندار‘‘ مظاہرے ہیں تو چھوٹے اور دور دراز علاقوں میں وکلاء کی ’’تمیز‘‘ تو اور بھی عروج پر ہو گی۔

وکلاء کے مظاہرے تو سامنے آگئے ہیں، تھانوں اور جیلوں کے علاوہ سرکاری دفاتر میں بھی ایسے کئی مظاہرے ہوتے ہیں۔ طبقاتی تقسیم میں الجھے ہوئے معاشرے میں کئی طبقے بہت طاقتور ہیں ان سے قانون بھی ڈرتا ہے، عام لوگوں کی تو مجال ہی نہیں کہ ان کے سامنے بول بھی سکیں۔ جب تک طبقوں میں یہ فرق برقرار رہے گا اس وقت تک مساوات کا خواب دیکھنا جرم ہے۔

معاشرے کے مختلف طبقوں کے شرارتی ٹولوں کو دیکھ کر مجھے ماسٹر بشیر باجوہ یاد آ جاتے ہیں کہ اگر یہ طبقے ماسٹر بشیر باجوہ کی نگرانی میں ہوتے تو بالکل سیدھے ہوتے، نہ کوئی بدتمیزی ہوتی نہ شرارت، ان سب کاموں کیلئے ماسٹر بشیر باجوہ کی ٹک ٹکی بےحد ضروری ہے، ایک لمبی ڈانگ ہاتھ میں ہو تو شرارتوں پر کنٹرول رہتا ہے اگر ٹک ٹکی اور ڈانگ سامنے نہ آئی تو بے گناہ اور بے قصور رلتے رہیں گے کہ بقول سرور ارمان ؎

عدل کے معیار میں آ جائیں گی تبدیلیاں

بے گناہی لائقِ تعزیر کر دی جائے گی

تازہ ترین