حذیفہ احمد
آج دنیا بھر میںسوشل میڈیا کےاستعمال میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ہم میں سے بہت سےا فراد پورا دن سوشل میڈیا پر تصویریں اور پوسٹس شیئر ،لائیک اورٹویٹ کرتے ہیں ۔لیکن بہت کم افراد یہ سوچتے ہیں کہ یہ عمل ہمارے دماغ پر کیا اثرات مر تب کرتاہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ جدید ایجادات متعارف ہونے کی وجہ سے انسانی دماغ کو کئی طرح کی پیش رفت سے سمجھو تاکرنےکی ضرورت پیش آتی رہی ہے۔انٹرنیٹ اور سو شل میڈیا کی تیز رفتار ترقی اور پھیلاؤنے بھی انسانی دماغ پربہت دل چسپ اثرات مرتّب کئے ہیں۔آن لائن نیٹ ورکنگ کچھ افراد کے لیے دل چسپی کے ساتھ ساتھ زندگی کا ایک طر زِعمل اور کُل وقت مشغلہ بننے کے بعد ’’نیو روپلا سٹیسٹی ‘‘یا نئے تجربات کے پیش نظر اپنے رویےکو بدلنے کی دماغی صلا حیت کا استعمال بےتحاشہ بڑھ گیا ہے ۔ماہرین دماغ کا کہنا ہے کہ جس شخص کے سوشل میڈیا پر جتنے زیادہ دوست ہوتے ہیں اس کے دماغ کا گرے میٹر اتنا ہی بڑا ہوتا ہے ۔
ہم آن لائن نیٹ ورکنگ کے سماجی اور معاشرتی اثرات کے بارے میں بات کرتے نہیں تھکتے، لیکن اس کے انسانی دماغ پراثرات کے بارے میں ہم شاید ہی کبھی زیر غورکرتے ہیں۔بہ ظاہر اس کی وجوہات آن لائن نیٹ ورکنگ کانیا پن اوراس موضوع پر کسی تحقیق کا نہ ہونا ہو سکتی ہیں۔ پھر بھی اب تک جو تھوڑی بہت تحقیق کی گئی ہے وہ بلاشبہ تجزیے کے قابل ہے۔مثلا رائل سوسائٹی کے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ فیس بُک پر ہمارے دوستوں کی تعدادکا ہمارے دماغ میں موجودگرے میٹر سے بہ راہ راست تعلق ہے۔واضح رہے کہ گرے میٹر یادداشت، احساسات، گفتگو، حسیّاتی تاثر اورپٹھوںکو کنٹرول کرنے والا دماغ کا ایک حصہ ہے۔محققین نے جب اس کے حجم کی پیمایش کی توانہیںمعلوم ہوا کہ جس شخص کے فیس بک پر جتنے زیادہ دوست تھے اس کے دماغ کے چند حصوں میں اُتنا ہی زیادہ گرے میٹر تھا۔پھر بھی اس صورتِ حال کےپسِ منظرمیں کسی صریح خواہش کی عدم موجودگی کے ضمن میں ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا وہ لوگ ہیں جن میں گرے میٹر بہت زیادہ ہے، وہ عام طور پر آن لائن نیٹ ورکنگ میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں یا پھر گرے میٹر کسی شخص کے فیس بُک کے دوستوں کی تعداد کی وجہ سے بنتا ہے۔ یادداشت گرے میٹر کے بنیادی عناصر میں سے ایک ہے اس لئے آن لائن نیٹ ورکنگ کی ہماری صورتِ حال کا جائزہ لینےکی صلاحیت پر اثرات کے حوالے سے اکثر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ اس حقیقت کے پیشِ نظرمثال کے طور پر ہم آن لائن نیٹ ورکنگ کو کسی سے بات چیت کے لئے استعمال کرتے ہیں جو ان کےٹیلی فون نمبر اور رابطے کی تفصیلات کو یاد رکھنے کے بالکل الٹ ہے۔ لہٰذا اس طرح ہم اپنی یادداشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لیکن سائنسی ثبوت سے ظاہرہوتا ہے کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
2012 میں تجزیہ کار ٹریسی پیکیئم ایلووے اور راس جیفری نے مختلف آن لائن نیٹ ورکنگ چینلز کے ہماری یادداشت، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں اور سماجی روابط کے مختلف درجات پر ہونے والے اثرات پر ’’سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس (SNSs) کے استعمال کے ادراکی مہارت پر اثرات‘‘ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ پیش کیا۔ انہیں تحقیق سے معلوم ہوا کہ مختلف مراحل پر مختلف اقسام کی مشقیں یقیناً اراکین کی فعال یادداشت پر فیصلہ کُن اثرات مرتّب کرتی ہیں۔مثال کے طور پر اُنہوں ایک رکن سے اپنے دوستوں کے فیس بُک ا سٹیٹس چیک کرنے کے لئے کہا۔یہ کام جتنا زیادہ کیا گیا اتنی ہی زیادہ فعال یادداشت کے درجات میں فیصلہ کن بہتری آئی۔تحقیق سے پتا چلاکہ زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لیے، یعنی زیادہ اسٹیٹس چیک کرنے، زیادہ تصویر یں دیکھنے اور زیادہ بات چیت کے لئے، ہمارے دماغ کورفتار کا ساتھ دینے کے لئے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ماہرین کے بہ قول ایک پٹھے کی طرح سیریبرم سےجتنا زیادہ کام لیا جاتا ہے اس کی نشونما اُتنی ہی متوازن ہوتی ہے۔