صادقہ خان
آج ہم ایک ڈیجیٹل دور میں جی ر ہے ہیں جہاں کسی بھی خبر کو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں چند منٹ لگتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ ہی گھنٹوں میں اس سے متعلق مثبت اور منفی تبصرے زبان ِزدِ عام ہوجاتے ہیں ۔ مگر50برس قبل جب امریکانے اپنا پہلاانسانی مشن چاند کی جانب بھیجا اور نیل آرم سٹرانگ نے چاند پر پہلا قدم رکھ کر خود کو تاریخ میں امر کیا ، اس وقت آج کی طرح نہ تیز تر مواصلاتی ذرا ئع تھے اور نہ ہی سوشل میڈیا مو جود تھا ۔
لہٰذا ابتدا میں اس مشن کے متعلق جو چہ مگوئیاں ہوئیں اور شکو ک وشبہات اٹھائے گئے وہ اخبارات کی سرخیوں تک محدود رہے جن میں بغیر ثبوت کے صرف سنی سنائی باتوں کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ انسان کا چاند پر پہلا قدم اصلی نہیں بلکہ کسی اسٹوڈیو میں فلمائی گئی ایک فلم تھی۔
پچاس برس قبل عوام کے پاس تیز تر مواصلاتی ذرائع نہیں تھے ۔ لہٰذااس دور میں مستند معلومات کا حصول محض کتابوں کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ چاند کے سفر کے بارے میں شکوک و شبہات پہلی دفعہ 1974 ءمیں بل کیسنگ کی کتاب ' ’’وی نیور وینٹ ٹو مون‘‘ یا ’’انسان کبھی چاندپر نہیں گیا ‘‘ میں منظر ِ عام پر آئے۔
گرچہ بل کیسنگ 1950 میں راکٹ ڈائن سے باحیثیت تیکنیکی لکھاری وابستہ تھے اور اس حوالے سے کافی معلومات رکھتے تھے، مگر پھر بھی انہوں نے کتاب میں سر سری حوالوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی اپولو الیون دراصل ایریا الیون نامی پروڈکشن ا سٹو ڈیو کی تیار کردہ ایک فلم تھی جسے ناسا نے لائیو نشریات کے طور پر دکھایا۔
کتاب کے جلد ہی مشہور ہونے کے بعد جب کیسنگ کو اس حوالے سے بحث کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کی نا صرف اپولو مشن بلکہ راکٹ کےبارے میں بھی معلومات سرسری ہیں ۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنی کتاب میں برملا لکھا کہ اس مشن کے حقیقت ہونے کے امکانات محض 0.0017 فی صد ہیں ۔
کیسنگ کی کتاب شائع ہوتے ہی اپولو مشن کو جعلی ریکارڈنگ سمجھنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا ۔ 1971ءمیں ایک نیوز پیپر کی جانب سے ایک سروے کروا یا گیا تو اُس وقت مون لینڈنگ پر یقین کرنے والے امریکیوں کی تعداد 30 فی صد تھی۔
جب کہ 1976 ءمیں کیے جانے والے ایک مستند پول میں یہ تعداد 28فی صد تھی۔ یعنی اس دوران ناسا یا امریکی حکومت کی جانب سے عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی تمام کوششیں ضائع ہو گئیں تھیں اور عوام ہنوز اسے متنازع سمجھتے تھے۔
اس کے کچھ عرصے بعد اپولو مشن ایک دفعہ پھر عوامی توجہ کا مرکز بن گیا جب فلیٹ ارتھ سوسائٹی کی جانب سے لینڈنگ پر تیکنیکی اعتراضات اٹھائے گئے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ لینڈنگ کی جو فلم ٹی وی پر براہ راست دکھائی گئی تھی وہ والٹ ڈزنی کے مالی تعاون سے تیار کی گئی تھی، جس کاا سکرپٹ آرتھر سی کلارک نے لکھا تھا۔ واضح رہے کہ فلیٹ ارتھ سوسائٹی ایسے اراکین پر مشتمل ہے جو زمین کے گول ہونے پر یقین نہیں رکھتے اور ان کا دعویٰ ہے کہ زمین ہموار ہے۔
اس شدید تنقید کی ایک بڑی وجہ 1978 ءمیں منظرِ عام پر آنے والی مریخ کے سفر پر بنائی گئی فلم ’’کیپریکون ون ‘‘ تھی، جس میں دانستہ ایسے مناظر فلمائے گئے جو اپولو لینڈنگ سے کافی زیادہ مماثلت رکھتے تھے۔ اس فلم کو امریکی حکومت کی مخالف لابی نےا سپانسر کر کے بنوایا تھا، تا کہ عوام میں حکومت کے خلاف نفرت کو کچھ اور زیادہ بڑھایا جا سکے ۔
یعنی وہ عوام کی فلاح کے لیے کام کرنے کے بجائے اس طرح کے جعلی لینڈنگ مشن دکھا کر عوام کو بے وقوف بنا نے کی کوشش کر رہی تھے۔ لہٰذا ایسے افراد جو زیادہ سا ئنسی معلومات نہیں رکھتے تھے وہ اپولو الیون مشن کو جعلی سمجھنے لگے اور یہ سلسلہ وقت کے ساتھ دراز ہوتا چلا گیا۔
اپولو الیون مشن کو جعلی قرار دینے کے لیے سوویت یونین کی جانب سے ایک باقاعدہ منظم مہم بھی چلائی گئی، جس میں سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی اور سوویت سائنسدانواں نے اپولو مشن کو جعلی قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اس مقصد کے لیے مشن کی جاری کی جانے والی ویڈیو پر بے شمار تیکنیکی اعتراضات اٹھائے گئے جیسے امریکی جھنڈے کا ہوا میں لہرا نا ، تصاویر میں آسمان پر ستاروں کی عدم موجودگی اور نیل آرم سٹرانگ کی اسپیس واک میں تیکنیکی نقائص شامل ہیں ۔
صرف اپولو الیون ہی نہیں اس کے بعد چاند کی جانب بھیجے جانے والے اپولو سلسلے کے تمام مشنز کو بھی جعلی قرار دیا گیا ۔گرچہ عوام امریکا اور روس کے درمیان عشروں سے جاری ا سپیس وار سے ناواقف نہیں تھے اور سائنسی معلومات رکھنے والے افراد جانتے تھے کہ ا سپیس ٹیکنالوجی میں روس امریکا سے کافی آگے تھااور اپولو الیون سے پہلے چاند پر انسان بردار مشن بھیجنے کے لیے پوری طرح پر عزم تھے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے بعد روس نے چاند کی جانب اپنا مشن خود ہی ختم کر دیا، مگر وہ امریکا کے چاند مشن کو جعلی قرار دینے کے لیےہمیشہ لابنگ کرتا رہا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
دنیا بھر میں عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی اس مشن کو جعلی ہی سمجھتی ہے۔ پاکستان میں سائنس میںبے رغبتی اور ملکی میڈیا کی جانب سے سائنسی خبروں کو اہمیت نہ دینے کے باعث اس طرح کی متنازع خبریں ہر دور میں پھیلتی رہی ہیں اور تعلیم یافتہ حلقوں کے انھیں رد کرنے اور عوام کو صحیح معلومات فراہم کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی ۔
حالاں کہ بھارت نے بھی چندماہ قبل اپنا مشن ’’چند ریان 2‘‘ چاند کی جانب روانہ کیا تھا اور چین بھی اسی برس چاند کی تاریک ترین سطح پر اپنا خلائی مشن بھیجا ہے ،مگر ہماری عوام آج بھی اپولوالیون کو جعلی قرار دینے میں جتی ہوئی ہے ۔پاکستان کا خلائی تحقیقاتی ادارہ سپارکو چاہیے کہ ایک واضح لائحہ عمل کے ساتھ پا کستان کا خلائی پروگرام مضبوط بنیادوں پر شروع کرے ،جس کے ذریعے عوام میں بھی سائنسی شعور بیدار ہوسکے اور روز مرہ زندگی میں خلائی سائنس کی اہمیت کو بھی بہ خوبی سمجھ سکیں گے ۔