لاہور(صابر شاہ) ملک میں مفاہمتی عمل کے لئے اپنی صلاحیتوں کے حوالے سے شہرت رکھنے والے سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین موجودہ حالات میں پھر سے سرگرم ہو گئے ہیں۔ اس بار چوہدری برادران فضل الرحمٰن کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اپنے سیاسی تنازعات پرامن طور پر مذاکرات کے ذریعہ حل کریں۔ گزشتہ 14سال کے دوران چوہدری شجاعت حسین نے ملک کی متحارب سیاسی قوتوں میں مفاہمت کی کم از کم تین کوششیں کیں۔ جنوری 2013میں چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی نے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کو 14تا 17جنوری 2013 کو پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف اپنا لانگ مارچ ترک کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔3تا 11جولائی 2007لال مسجد کے محاصرے کے دوران چوہدری شجاعت حسین نے اس وقت کے وزیر مذہبی امور اعجاز الحق ، دیگر وزراء محمد علی درانی اور طارق عظیم کے ساتھ مل کر عبدالرشید غازی سے مذاکرات کی کوشش کی لیکن مذاکرات ناکام رہے۔17؍مارچ 2005ء کو بگٹی قبائل اور نیم فوجی دستوں کے درمیان جھڑپوں میں 70افراد مارے گئے چوہدری شجاعت نے نواب اکبر بگٹی مرحوم سے مذاکرات کئے جس کے نتیجے میں اکبر بگٹی نے ناکہ بندی ختم کرنے کا اپنے قبائل کو حکم دیا۔ سردار شیر علی مزاری، براہمداغ بگٹی اور تابش بگٹی کی موجودگی میں تنازعات کے حل کیلئے کمیٹی بنائی گئی لیکن یہ بھی تاریخ ہے کہ نواب اکبر بگٹی کوہلو میں واقع اپنی پناہ گاہ فوجی آپریشن کے دوران اپنے 26 جانبازوں کے ساتھ مارے گئے۔